| اپنے پرانے دل کے نہ اب زخم کھولۓ |
| مت زندگی میں اپنی یوں ہی زہر گھولۓ |
| ہونا خفا تھا جتنا خفا آپ ہو لۓ |
| باہر کھڑا ہوں کب سے میں دروازہ کھولۓ |
| تاخیر ایک پل کی سزا عمر بھر کی ہے |
| کھلنے سے پیشتر ہی قفس پر کو تولۓ |
| کیوں جل کے خاک طور سا پھر وہ ہی دل ہوا |
| جس دل میں ہم نے حسن کے جلوے سمو لۓ |
| ہوتی ہی ختم دل کی کبھی کشمکش نہیں |
| پھرتے ہیں اپنے دل کو یوں ہی گومگو لۓ |
| اچھی بھلی تھی زندگی کر کے یوں پیار کیوں |
| کانٹے سے اپنی راہ میں خود ہم نے بو لۓ |
| ایک ایک کر کے قرض اتارے حیات کے |
| ایک ایک کر کے سارے نفس ہم نے ڈھو لۓ |
| سب کو ملا ہے ایک ہی دل ایک ہی جگر |
| دل دو لۓ ہیں ہم نے جگر ہم نے دو لۓ |
| کب کی گزر چکی ہے شب اپنے وصال کی |
| جو بند ہیں حیا سے وہ پلکیں تو کھولۓ |
| جچتی نہیں ہے عشق میں اک لغزشِ پا بھی |
| پی کر ادھر ادھر نہ یوں ہی آپ ڈولۓ |
| جس نے بھی دیکھا پیار سے دل نرم ہو گیا |
| جس نے بھی ہنس کے بات کی ہم اس کے ہو لۓ |
| ارمان دل کے دل میں ہی دفنا لۓ سبھی |
| آنکھوں میں ہم نے غم کے سفینے ڈبو لۓ |
| بھرتے تھے آپ تو بڑا قادر وفا کا دم |
| بیتی شبِ فراق نہیں آپ سو لۓ |
معلومات