| کہیں لگ نہ جاۓ کسی کی آہ جو ہو سکے تو بچا کرو |
| نہیں توڑو گل کوئی شاخ سے نہیں دل کو دل سے جدا کرو |
| کسی ضابطے میں رہا کرو کسی قاعدے سے جیا کرو |
| وہ وفا کرے تو وفا کرو وہ جفا کرے تو جفا کرو |
| پئے عاشقی کسی اور کو کوئی دوش تم نہ دیا کرو |
| انہیں پانے کی جو ہو آرزو کبھی جستجو بھی کیا کرو |
| یہ شہید عشق کی قبر ہے تم اب آۓ ہو تو دعا کرو |
| بھلے رسم سمجھو تو چھوڑ دو ہو یہ حق اگر تو ادا کرو |
| ملی ہجر کی جو فضیلتیں غمِ عشق کی ہیں ودیعتیں |
| نہ طریقتوں سے ہٹا کرو نہ نمازِ عشق قضا کرو |
| چلے کون کب کسے کیا خبر کہ یہ زندگی ہے عجب سفر |
| نہیں موت سے ہے یہاں مفر چلے ہم کہ اب تو دعا کرو |
| کوئی حزن ہو کہ ملال ہو نہیں کم کسی کا خیال ہو |
| بھلے غیر بھی ہو کوئی اگر سو سلوک سے تو ملا کرو |
| کہ یہ زندگی بڑی چیز ہے مجھے حد سے بڑھ کے عزیز ہے |
| مرے جسم میں مری روح ہے نہ قفس سے مجھ کو رہا کرو |
| تمہیں جاؤ شیخ بہشت میں یہ نہیں ہے اپنی سرشت میں |
| نہ گنہ کے بعد گنہ کرو نہ خطا کے بعد خطا کرو |
| یہ جو غرقِ جام و سبو ہو تم کہ بسیطِ دل کی نمو ہو تم |
| سدا رہتے ہو جو نشے میں تم کبھی ہوش کی بھی دوا کرو |
| ہیں کئی یوں محفلیں راہ میں پڑے ہم تمہاری پہ چاہ میں |
| جو ملو تو اپنا سمجھ کے تم نہیں غیر بن کے ملا کرو |
| ہمیں دوش دیتے ہو اب تو کیوں یہ رہا ہے اپنا سدا چلن |
| سنو بات یوں تو سبھی کی تم مگر اپنے دل کی کیا کرو |
| سنا شہر میں بڑا نام ہے پہ ہمارا اتنا پیام ہے |
| نہیں کم کسی سے بھی ہم صنم بڑے تم اگر ہو ہوا کرو |
معلومات