| سولہ سنگھار کر کے وہ آۓ جو خواب میں |
| دل بلیوں اچھلنے لگا اضطراب میں |
| مصروف حسن کے میں رہا انجذاب میں |
| گزری ہے عمر عشق کے بس اکتساب میں |
| جل کر مرا تو کیا ہوا پروانہ عشق میں |
| خود شمع جل رہی ہے اسی التہاب میں |
| ہر روز کر رہے ہیں وہ فرمائشیں نئی |
| لو پڑ گئی ہے جان مری کس عذاب میں |
| لہرا کے چل رہا ہوں خوشی سے نہیں مگر |
| میں موج میں نہیں کہ ہوں موجِ شراب میں |
| اتنے میں زندگی کا سفر ختم ہو گیا |
| رکھا ابھی نہ پاؤں تھا میں نے رکاب میں |
| سب حسن کا جہان ہوا اس کے معترف |
| رکھا ابھی نہ پاؤں تھا اس نے شباب میں |
| یہ پوچھ کر ہوا تھا میں رخصت جہان سے |
| رہ تو نہیں گیا ہے مرے کچھ حساب میں |
| دیکھا جو کھول کر تو ملیں اس کی پتیاں |
| رکھا تھا ایک پھول جو دل کی کتاب میں |
| لاکھوں حسینوں میں وہی بس ایک نازنیں |
| پھولوں میں ہے گلاب مرے انتخاب میں |
| اٹھتی ہیں موجیں اشکوں کی تا آسماں بلند |
| بڑھتا ہے درد دل کا شبِ ماہتاب میں |
| قادر لگی ہے لو مری اب سر تا سر الگ |
| کرتا تھا بات عشق کی عہدِ شباب میں |
معلومات