جب سے ہوئی ہے آپ سے الفت بہت مجھے
ملتی ہے زخم چھیڑ کے لذت بہت مجھے
ہر چند بن بلاۓ چلا آیا تھا مگر
محفل میں آپ کی ملی عزت بہت مجھے
اترے ہے پورا کب گو توقع پہ ہر کوئی
ملنے کی آپ سے تھی کہ حسرت بہت مجھے
کرتا نہیں ہوں یوں تو گلہ میں کبھی مگر
ہے زندگی سے اپنی شکایت بہت مجھے
حوروں کا کیا سلوک ہو اس کی خبر نہیں
کرتی تھی تنگ خلد میں عورت بہت مجھے
روکے ہے اک طرف بڑی کاوش سے عقل تو
اکساتی ہے گناہ پہ خصلت بہت مجھے
آسان ہو گیا ہے سفر آگے کا مرا
اس نے کیا ہے پیار سے رخصت بہت مجھے
رکھنے کو ہے قدم کوئی عہدِ شباب میں
نزدیک لگ رہی ہے قیامت بہت مجھے
توہین اپنی مجھ کو گوارا نہیں مگر
ہر چند آپ سے ہے محبت بہت مجھے
محبوس ہو کے پہنچا صفِ دشمناں میں تو
مل کر ہوئی ہے تم سے مسرت بہت مجھے
سرزد کوئی گناہ سا لگتا ہے ہو گیا
کرتا ضمیر جب ہے ملامت بہت مجھے
لائق نہیں ہوں آپ کے حسنِ سلوک کے
محسوس ہو رہی ہے ندامت بہت مجھے
اوزان میں عدو کو پرکھنے کے تول کر
دیکھا جو خود کو تو ہوئی حیرت بہت مجھے
اتنا مبالغہ کہ فنِ شاعری میں ہے
کہنے کی جھوٹ پڑ گئی عادت بہت مجھے

0
5