کس لۓ پیدا ہوا ہوں ہم نوا معلوم نہیں
ابتدا معلوم نہیں انتہا معلوم نہیں
اپنا بھی کس سے پڑا ہے سابقہ معلوم نہیں
پیار ہے ان سے جنہیں نامِ وفا معلوم نہیں
آج کے پروانے کو بھی شمع سے الفت وہ نہیں
شمع بھی کہتی ہے یہ کیا ہے بلا معلوم نہیں
اس کو ہو شکوہ بھلا کیا اور توقع ہو تو کیوں
جس کو ہو اپنا ہی کچھ اچھا برا معلوم نہیں
ہم کو ہے پھر کیا پتہ جو صبح و مسا دہر میں ہو
ہم کو تو اے دل کہ ہے اپنا پتہ معلوم نہیں
چل رہی تھی سانس مری ٹھیک ابھی اچھی بھلی
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا معلوم نہیں
پی رہا تھا جام مے کے رات میں آنکھوں سے تری
اتنا تو معلوم ہے پھر کیا ہوا معلوم نہیں
کر لیا اقبال میں نے جرمِ نا کردہ کا مرے
کاٹتا ہوں وہ سزا جس کی خطا معلوم نہیں
کس کی یہ پازیب کی جھنکار مرے کان میں ہے
چل رہا ہے کون مرے پا بہ پا معلوم نہیں
اب کہاں کھلتی ہے مرے دوش پہ وہ زلفِ سیاہ
اب کہاں چھاۓ گی وہ کالی گھٹا معلوم نہیں
عشق کے کتنے کۓ تھے معرکۂ رزم یوں سر
قتل میں جس میں ہوا وہ معرکہ معلوم نہیں
جس جگہ سے بابِ اجابت ہو دعاؤں کے قریب
مجھ کو ہے وہ معبدِ حمد و ثنا معلوم نہیں
لامکاں کیا چیز ہے کیا ہے مکاں مجھ کو نہ خبر
جسم کا ہے روح سے کیا سلسلہ معلوم نہیں

0
3