حسینوں کو محبت میں خفا میں کر نہیں سکتا
کسی کو بھی کبھی دل سے جدا میں کر نہیں سکتا
بجز کچھ اور بس صبر و رضا میں کر نہیں سکتا
وفا تم کر نہیں سکتے جفا میں کر نہیں سکتا
حسینوں کے ہر اک جلوے کا دل مقروض ہے لیکن
لۓ ہیں قرض ہی اتنے ادا میں کر نہیں سکتا
کبھی وہ آ ہی جاتے ہیں مری بیمار پرسی کو
کہیں اچھا نہ ہو جاؤں دوا میں کر نہیں سکتا
خفا کیوں ہو بہک کر جو ذرا سی ہو گئی لغزش
فرشتہ تو نہیں ہوں جو خطا میں کر نہیں سکتا
نہیں کھلتا کبھی میرے لۓ بابِ اجابت کیوں
گماں مجھ کو اثر پر ہے دعا میں کر نہیں سکتا
کسی نے پیار سے دی ہے قسم یوں جان کی اپنی
کہ مے اب پی نہیں سکتا نشہ میں کر نہیں سکتا
ذرا سی ڈا ل دے ساقی وضو کرنے کو ساغر میں
نمازِ ہجر کو اپنی قضا میں کر نہیں سکتا
بنا پایا نہ تھوڑی سی جگہ بھی میں ترے دل میں
بہت جذبہ تھا اس دل میں کہ کیا میں کر نہیں سکتا
یہ ہی بس سوچ کر میں نے کبھی چھوڑی نہ میخواری
کروں کیوں کام ایسا جو سدا میں کر نہیں سکتا
کہ ہوں اس حد تلک حاسد تمہاری اس محبت میں
ذرا شرکت بھی غیرے کی روا میں کر نہیں سکتا
بھرا ہو تا بہ لب آدھا ہو یا پھر تہہ تلک خالی
کہ ساغر کو کبھی لب سے جدا میں کر نہیں سکتا
کہوں اپنے جو میں حق میں تو ثابت ہو خطا تیری
خطا جو ہو تری ثابت خطا میں کر نہیں سکتا
صنم بھاتے ہیں آنکھوں کو پر اپنا دل موحد ہے
بتانِ دیر کو قادر خدا میں کر نہیں سکتا

0
3