لگتی ہے اپنی اجنبی صورت بہت مجھے
دیکھا جو آئینہ ہوئی حیرت بہت مجھے
آتے ہیں یوں تو ذہن میں دو چار مشغلے
کرلوں نہ عشق ہی کہ ہے فرصت بہت مجھے
آنکھوں میں اشک داغ جگر دل پہ زخم ہیں
بخشی ہے تیرے عشق نے دولت بہت مجھے
پہلے تو غم بھلانے کو پیتا تھا میں شراب
اب ہو چلی شراب سے رغبت بہت مجھے
لگتے ہیں نرم ہونٹوں کے گوشے بہت بھلے
بھاتی ہے تیرے رخ کی صباحت بہت مجھے
ہر بار سو اٹھانی پڑی ہیں ہزیمتیں
مہنگی پڑی عدو سے عداوت بہت مجھے
پیدا میں اپنے وقت سے پہلے ہی ہو گیا
بخشی گئی نظر کی یا وسعت بہت مجھے
پھر ڈگمگا ہی پاؤں گۓ امتحان میں
ہر چند دی گئی تھی ہدایت بہت مجھے
اے کاش عمر ہوتی مری اور کچھ دراز
جتنی بھی ملی کم ملی مہلت بہت مجھے
دل ہے کہ مطمئیں نہیں ہوتا کسی طرح
کرنی تمام پڑتی ہے حجت بہت مجھے
جانا پڑا جہان سے آخر کو ایک دن
کرتا تھا پس و پیش تھی علت بہت مجھے
اچھے اگر نہیں تو برے طور ہی سہی
کرتے ہیں آپ یاد عنایت بہت مجھے
شاید کچھ اور دن میں وہ " آ جاتا راہ پر "
مرنے کی جانے کیوں تھی کہ عجلت بہت مجھے

8