سجی ہوئی ہیں یوں محفلیں تو مگر وہ رنگِ طرب کہاں ہے
رہی نہ دنیا بھی اب وہ دنیا زمین وہ ہے نہ آسماں ہے
بہت ہیں یوں تو حسین چہرے نظر میں لیکن نظر دھواں ہے
بس اک خلا سا ہے چاروں جانب نہ چاند تارے نہ کہکشاں ہے
کہوں تو کس سے میں رازِ ہستی قدم قدم پر کہ چیستاں ہے
خود اپنے قالب میں جان اپنی کبھی خفی ہے کبھی عیاں ہے
دو ایک جیسے ہیں دل تو لیکن صدائیں دونوں کی مختلف ہیں
دو ایک جیسے تو ہم ہیں لیکن تجھے یقیں ہے مجھے گماں ہے
کہ منزلیں جب نہ مشترک ہوں تو ہم سفر کا خیال کیسا
چلے تو ہم ساتھ ہی تھے لیکن میں اب کہاں ہوں تو اب کہاں ہے
ہزار اندھیروں کا قتل کر کے افق پہ سورج ابھر رہا ہے
پہ جیسے آنکھ اس کی سرخ لالہ پہ جیسے دل اس کا خوں چکاں ہے
سمجھ رہا ہوں میں سب کی باتیں اگرچہ رہتا ہوں بے خودی میں
کہ بے خودی کی ہر ایک منزل خود ایک عالم خود اک جہاں ہے
ہزار چھانے پہ بدلیاں سی چھپی کسی سے ہے چاندنی بھی
تمہارے رنگین رخ کا چرچا نظر نظر ہے زباں زباں ہے
نہیں سوا اس کے کوئی ہستی یقیں نہ ہستی کا اپنی کرنا
نہ کھانا ہرگز فریبِ ہستی کہ موجِ ہستی فقط گماں ہے
بہت کڑی اس کی منزلیں ہیں بہت کٹھن اس کے راستے ہیں
ہر اک نفس پر ہے آزمائش یہ زندگی ایک امتحاں ہے
پڑی سبھی کو یہاں ہے اپنی کسے خیال آۓ دوسرے کا
کوئی کسی کا نہ رازداں ہے کوئی کسی کا نہ ترجماں ہے
اچھل رہی ہے بھنور کی لہروں پہ کشتیِ جان اپنی قادر
کروں تو ایسے میں کیا کروں میں نہ ناخدا ہے نہ بادباں ہے

0
1