| تیغ ہر دم وہ تان رکھتے ہیں |
| ہم بھی کیا مہربان رکھتے ہیں |
| ہم نے مانا کہ تو حسیں ہے مگر |
| ہم بھی حسنِ بیان رکھتے ہیں |
| دور ہو جائیں منزلیں تو کیا |
| حوصلے ہم جوان رکھتے ہیں |
| اس ہجومِ غمِ فراق میں بھی |
| دل کو ہم شادمان رکھتے ہیں |
| پاؤں میں جن کے ہو رکاب نہیں |
| ہاتھ میں کب عنان رکھتے ہیں |
| عشق میں خاک جو ہو جاتے ہیں |
| کب وہ اپنا نشان رکھتے ہیں |
| اک کہانی اگر تمہاری ہے |
| ہم بھی اک داستان رکھتے ہیں |
| کتنی دل داری سے شباب میں وہ |
| اک قدم الامان رکھتے ہیں |
| تم نہ آؤ گے جانتے ہیں مگر |
| پھر بھی ہم اک گمان رکھتے ہیں |
| آتے ہیں جال میں وہی اکثر |
| جو پرندے اڑان رکھتے ہیں |
| وہ جو کرتے ہیں عشق اے قادر |
| کب زمان و مکان رکھتے ہیں |
| ق |
| کم زباں دانی کا گو اک الزام |
| ہم پر اہلِ زبان رکھتے ہیں |
| پھر بھی خاموش رہتے ہیں ہر چند |
| " ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں " |
معلومات