| اچھا کیا جو پھوٹ کے یوں آپ رو لۓ |
| جتنے بھی دل کے داغ تھے رو رو کے دھو لۓ |
| چپ کیوں ہیں اتنے بہر خدا کچھ تو بولئے |
| کانوں میں اپنے رس تو ذرا آپ گھولۓ |
| پھر اس ادا پہ کیوں نہیں ہو جائیں ہم فدا |
| ہو کر خفا وہ کہتے ہیں ہم سے نہ بولۓ |
| اپنی بیاں کریں نہ کبھی داستانِ غم |
| اپنا نہ دل کا راز کسی پر بھی کھولۓ |
| ایسا نہ ہو کہ چوٹ کسی دل پہ جا لگے |
| کہنے سے پہلے اپنی ہر اک بات تولۓ |
| ہنسنے لگے تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے |
| چھونے لگے گلاب تو کانٹے چبھو لۓ |
| اک بوند بھی نہ جسم میں باقی ہے خون کی |
| غم نے دل و جگر سبھی اپنے بلو لۓ |
| مژگاں پہ ٹک گۓ ہیں کچھ آنسو اب اس طرح |
| پلکوں پہ ہم نے جیسے کہ موتی پرو لۓ |
| معلوم کیجۓ جو ندامت ہے آپ کو |
| سینے میں اپنے دل کو ذرا سا ٹٹولۓ |
| رکھنا پڑا ہے ان کے عوض اپنی جان کو |
| لمحات رہن زندگی سے ہم نے جو لۓ |
| جس طرح عشق میں یہ گزاری ہے زندگی |
| مرنے سے پہلے اپنے گنہ ہم نے دھو لۓ |
| اک پل میں ہم پہ کتنی قیامت گزر گئی |
| تم نے ذرا جو روٹھ کے دیدے بھگو لۓ |
| آنے دیا نہ حرف کوئی تیرے نام پر |
| الزام اپنے سر پہ سبھی ہم نے تو لۓ |
| خوش آۓ یا نہ آۓ کسی کو بھلے مگر |
| پھر اس زمیں میں ایک غزل اور رولۓ |
معلومات