تیغ کیوں آپ تان لیتے ہیں
جو بھی کہتے ہو مان لیتے ہیں
کتنے چالاک حسن والے ہیں
چشم و ابرو سے جان لیتے ہیں
بات لگتی نہیں ہے دل کو مگر
​​تم جو کہتے ہو مان لیتے ہیں
بس بلاتے اشاروں سے ہیں ہمیں
نام کب مہربان لیتے ہیں
جب بھی لیتے ہیں صاحب انگڑائی
اپنے سینے کو تان لیتے ہیں
عمر بھر میں یہی سمجھتا رہا
وہ فقط امتحان لیتے ہیں
سوچتا بعد میں ہوں میں لیکن
لوگ پہلے ہی جان لیتے ہیں
بات کرتے ہیں ایک آن کوئی
سانس پھر ایک آن لیتے ہیں
ہو کے رہتا ہے پھر وہی سب کچھ
بات وہ جو بھی ٹھان لیتے ہیں
کیا گزارے ہیں زندگی ہم بھی
بس ذرا کھینچ تان لیتے ہیں
سامنے ان کے گھر کے اے قادر
ہم بھی پھر اک مکان لیتے ہیں

0
3