اپنے ہی اعمال کا بھرنا مجھے خمیازہ تھا
یاں درِ مے خانہ تھا واں خلد کا دروازہ تھا
آتے ہی دھڑکا لگا دنیا سے جانے کا مجھے
خلد سے اخراج کا بھی زخم تازہ تازہ تھا
باندھ کر ہمت گیا پر تم نے دیکھا اس طرح
ایک پل میں سب مرا شیرازہ بے شیرازہ تھا
جس طرح سے آج چھائی کفر کی ظلمت ہے یاں
ہر طرف پھیلا ہوا اسلام کا آوازہ تھا
دور کے سب ڈھول ہوتے ہیں سہانے سچ میاں
عشق میں یہ حال ہوگا کب مجھے اندازہ تھا
سانس کے چلنے پہ قائم ہے بدن کا سب نظام
اک لڑی کیا کٹ گئی سب منتشر شیرازہ تھا
الغرض جا کر لگا اپنے حدف پر ٹھیک ٹھاک
تاک کر مارا ہو تم نے تیر یا اندازہ تھا
سرمے سے آنکھیں تھیں کالی ہونٹ لالی سے تھے سرخ
رخ پہ فکرِ وصل سے شرم و حیا کا غازہ تھا

0
5