| یاد بھی آتی تری ہمدم نہیں ہے |
| اب کوئی اپنا شریکِ غم نہیں ہے |
| خوش اگر ہیں آپ تو کیا کم نہیں ہے |
| اپنی بربادی کا ہم کو غم نہیں ہے |
| خونِ دل اب آنسوؤں میں ضم نہیں ہے |
| درد بھی سینے میں اب پیہم نہیں ہے |
| جو سلجھ جاۓ ہماری انگلیوں سے |
| زندگی زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے |
| موت بھی ہر درد کا چارہ نہیں ہے |
| وقت بھی ہر زخم کا مرہم نہیں ہے |
| اتنا دوڑا زندگی کے راستوں پر |
| تھک گیا ہوں دم میں اپنے دم نہیں ہے |
| اب کشش تیرے نہیں جوبن میں شاید |
| یا مرے وہ شوق کا عالم نہیں ہے |
| عشق سے سرشار ان پروانوں کو اب |
| امتیازِ شعلہ و شبنم نہیں ہے |
| موت کو درکار ہیں کیوں سو بہانے |
| زندگی کا زہر ہی کیا کم نہیں ہے |
| آ نہ پاؤ چل کر اس کی روشنی میں |
| یہ دیا اتنا بھی اب مدھم نہیں ہے |
معلومات