| کب تک ڈرے رہیں گے رسوائیوں کے ڈر سے |
| کچھ تم چلو ادھر سے کچھ ہم چلیں ادھر سے |
| آتا نہیں ہے کوئی کوچے میں اپنے ڈر سے |
| ہمت اگر ہے تم میں گزرو کبھی ادھر سے |
| کچھ اس طرح سے دیدے پھر آج اپنے برسے |
| سب ایک لگ رہے ہیں ہم کو تو بحر و بر سے |
| شاید کہ ان میں باہم اک ربط کی کمی ہے |
| پتے جو گر رہے ہیں یوں ٹوٹ کر شجر سے |
| محفل سے جانے پر وہ میرے کسی سے بولے |
| کیسی بلا ٹلی ہے دیکھو تو اپنے سر سے |
| کھائی جو چوٹ گھر پر جا کر حرم میں روۓ |
| تھے پاس ہی کے بادل پر دور جا کے برسے |
| پیچھے پڑے تھے ہم کیوں اک عارضی خوشی کے |
| اب خوف آ رہا ہے تنہائیوں کے ڈر سے |
| تسلیم تیری باتیں کرتے ہیں پیار میں ہم |
| دل مطمئیں نہیں ہے پر نقطۂ نظر سے |
| کرتے ہیں قتل لاکھوں لیکن ستم ظریفی |
| اوسط نکالتے ہیں سو میں وہ اک نفر سے |
| شب بام پر چڑھے ہیں مہتاب کتنے تیرے |
| نکلے ہیں کتنے سورج ہر صبح تیرے در سے |
| جیسے ترس رہے ہیں اک بوند مے کی خاطر |
| کوئی بھی اس طرح سے قادر کبھی نہ ترسے |
معلومات