جو میں نے چھیڑی وفا کی باتیں وہ چھیڑ بیٹھے جہاں کی باتیں
|
ادھر کی باتیں ادھر کی باتیں یہاں کی باتیں وہاں کی باتیں
|
سنائی ہر ایک نے تواتر سے اپنے اپنے گماں کی باتیں
|
کہ میں اور آزُرْدَگی کی باتیں وہ اپنے نام و نشاں کی باتیں
|
نہیں مناسب ہم اہل دل کو غمِ زمانہ سے ہٹ کے سوچیں
|
زمین کی مانگ سونی ہو اور چھیڑیں ہم کہکشاں کی باتیں
|
|