کم نگاہی تھی مری تو بے اثر رکھا مجھے
میں بشر تھا عمر بھر اس نے بشر رکھا مجھے
وُسعَتِ افلاک تک پھیلا نہ دوں اپنا وجود
ذات کی حَدِ فنا میں مختصر رکھا مجھے
بخش کر مجھ کو شُعُورِ آگَہی ہست و بود
اِنْقِلابِ روز و شب سے باخبر رکھا مجھے
میں کہ تھا اک شمع اس نے روشنی کے واسطے
شام کو روشن کیا اور تا سحر رکھا مجھے
میری حُسْنِ ذات کا قائل نہ ہوتا یہ جہاں
چاک دامانی عطا کی معتبر رکھا مجھے
وہ جلاتا ہی رہا میری امیدوں کے چراغ
اور ساری عمر یوں مَحْوِ سفر رکھا مجھے
کائناتی بحر میں تو اک صدف ہے یہ زمیں
اور شاعر اس صدف میں اک گہر رکھا مجھے

0
18