بوئے ہوئے خوابوں کا ثمر ڈھونڈ رہے ہیں
بیدار ہیں ہم لوگ سحر ڈھونڈ رہے ہیں
پھر سوز شرر بار خلش چاہیے دل کو
پھر جَری نظر بار دگر ڈھونڈ رہے ہیں
احساس ندامت ہمیں رونے کا بہت ہے
آنکھوں سے گرے تھےجو گہر ڈھونڈ رہے ہیں
بازو تو ہیں پر چاہیے ہے جذبہ پرواز
صیاد نے نوچے تھے جو پر ڈھونڈ رہے ہیں
وہ جرات بیباک نگاہی نہیں ملتی
جو گم ہوئی جلووں میں نظر ڈھونڈ رہے ہیں
جس راہ کے خاروں سےہوئے زخمی دل و جاں
ہم آج وہی راہ گزر ڈھونڈ رہے ہیں
ہر زخم کو مرہم ملے ہر روح کو جلوت
کیا جرم ہے انصاف اگر ڈھونڈ رہے ہیں
جلتے ہوئے شعلوں کو شعور آگیا شاید
اب اپنے ہی محسن کا یہ گھر ڈھونڈ رہے ہیں

0
51