خیال و فکر کی دشوار رہگزر میں رہی
حیات کرب کے انداز سے سفر میں رہی
مسافتِ رہِ منزل کا سلسلہ نہ رکا
اگر میں تھک بھی گیا آرزو سفر میں رہی
قدم تو دھوپ میں صحرا کی سمت بڑھ بھی گئے
نگاہ اٹکی ہوئی سایہ شجر میں رہی
فسانہ زیست کا جو کہنا تھا کہہ دیا تاہم
جو ان کہی تھی کہانی وہ چشم، تر میں رہی
بغیر عزم نہ اُڑ پایا شاخ سے طائرشاہین
اگرچہ قوتِ پرواز بال و پر میں رہی

4