عمر کہتے ہیں جسے سانسوں کی اک زنجیر ہے
چشم بینا میں ہر اک لمحے نئی تصویر ہے
زندگی انعام کی صورت میں اک تعزیر ہے
جو کبھی دیکھا نہ تھا اس خواب کی تعبیر ہے
جو پَس پردہ ہے اس کو چاہے جو کہہ لیجئے
پیش جو آئے وہی انسان کی تقدیر ہے
کوئی منظر یوں نہیں جس کا کہ پس منظر نہیں
ذات کا اظہار گویا ذات کی تشہیر ہے
رات خائف ہے کہ تحلیل سحر ہوجائے گی
صبح کو یہ فکر لاحق شام دامن گیر ہے

0
45