خوب ہے گرمیٔ بازارِ ہوس اب کے برس
اُونچے داموں بک رہے ہیں خار و خس اب کے برس
کاٹتے کٹتا نہیں چوبیس گھنٹے کا پہاڑ
بوجھ دل پر بن گیا اک اک نفس اب کے برس
منتظر کب سے کھڑا ہے کاروانِ زندگی
پھر پکارے کوئی آوازِ جرس اب کے برس
اک قدم آگے بڑھے تو دو قدم پیچھے ہٹے
راہِ حق میں تو عجب ہے پیش و پس اب کے برس
سرد ہوکر رہ گیا ہے جذبۂ رقصِ جنوں
کوئی دیوانہ نہ ہوگا ٹس سے مس اب کے برس
گنبدِ قصرِ محبت ڈھا دیئے جائیں گے سب
قلعۂ نفرت پہ چمکیں گے کلس اب کے برس
ہو رہا ہے آج صیّادوں میں شاعر مشورہ
اُونچی کی جائے گی دیوارِ قفس اب کے برس

61