دلیل صبح نہیں رات کا بسر ہونا
بجھے نہ شمع غَمِ دِل تو کیا سحر ہونا
کبھی زمیں پہ کبھی تخت عرش پر ہونا
سکھا دیا ہے رب نے ہمیں بشر ہونا
کبھی ادھر سے گزرنا کبھی ادھر ہونا
ہے کچھ نہ کچھ تو ہواؤں کا میرے سر ہونا
ہزار مرحلوں سے تمہیں تو گزرنا ہے
کوئی مذاق نہیں شام کا سحر ہونا
کھٹک رہا ہے دل باغباں میں کانٹا سا
چمن سے پیار مرا مطمحِ نَظَر ہونا
ہنسی نہیں ہے غم زیست کا بھرم رکھنا
خودی کی آگ میں جلنا ہے دیدہ ور ہونا
فصیل شہر پہ رکھ دی ہے ہم نے شمع وفا
فسون شب کا ہے دشوار کارگر ہونا
ہے نکتہ رس تو کوئی نکتہِ چیں یاں شاعر
تضادِ ذات بنا صاحِبِ ہنر ہونا

0
26