ہم نے جو راہ منتخب کی ہے
یاد رکھنا ، بڑے غضب کی ہے
جان کی اپنی ، فکر کب کی ہے
ہم نے کس سے اماں طلب کی ہے
جانتے ہیں سبب تباہی کا
کب ہمیں جستجو سبب کی ہے
ہم فقیروں کی خو میں ہے اورکچھ
نام کی ہے نہ وہ نسب کی ہے
بے ادب کیوں وہاں رہے کوئی
شرطِ اوّل جہاں ادب کی ہے
جس طرف اُٹھ گئی ، اُٹھی ہی رہی
یہ نظر ایک جاں بلب کی ہے
اک سہارا اُسی کا ہے شاعر
یاد جو دل میں اپنے رب کی ہے

0
14