جبر اوہام ہے اب اہلِ یقیں بول پڑیں |
ہم نہ بولے تو حوادث نہ کہیں بول پڑیں |
کہیں پتھرا کے نہ رکھ دیں یہ طلسماتِ فضا |
ایسی چپ ہو تو یہ بہتر ہے ہمیں بول پڑیں |
کچھ سوالات کی ضربوں سے ہی زنجیر کٹے |
جب مقفل ہوں مکاں سارے مکیں بول پڑیں |
مصلحت انگلی نہ رکھ دے لبِ بیساختہ پر |
ہم کو منظور نہیں ہے تو ”نہیں“ بول پڑیں |
خود کو جب کرنے لگوں قائلِ دردِ ہجراں |
دور کے لوگ مرے دل کے قریں بول پڑیں |
سارا ساحل ہی نہ لے جائے کوئی موجِ بلا |
آسماں ٹوٹے تو سب خاک نشیں بول پڑیں |
بے حسی شہر کی پہچان نہ بن جائے کہیں |
بولنے والے جہاں بھی ہوں وہیں بول پڑیں |
معلومات