یہ کار ستم کیشی یہ بگڑی ادا کب تک
اے وقت بتا تیرا اترے گا نشہ کب تک
یہ جور و جفا کب تک یہ ناز و ادا کب تک
دیکھیں گے اسے ہم بھی بنتا ہے خدا کب تک
جو حبس کا عالم ہے طوفاں تو اٹھنا ہے
رکھے گی بھلا فطرت مسموم فضا کب تک
اک دن تو اترنا ہے ہر رنگ رُخِ ہستی
یہ بدیسی اچکن کب تک یہ سبز قبا کب تک
اک شمع بجھے گی تو سو شمعیں جلائیں گے
ہم عزم کے ماروں سے الجھے کی ہوا کب تک
کھلنا بھی حقیقت ہے جب باب اجابت کا
مقبول نہ ہوگی پھر شاعر کی دعا کب تک

0
12