زرد زرد پتے ہیں ماند رنگتیں ساری
چھین لی ہواؤں نے گل کی نکہتیں ساری
لاکھ خود ستائی میں لوگ ہوں اثاثہ ہو
اک دِیئے کے دم سے ہے گھر کی رونقیں ساری
خیر کی توقع کیا جاں گداز صحرا سے
اک جنون خستہ جاں اور وحشتیں ساری
اک خودی بڑھاتی ہے قدر آدمیت کی
اک سوال لے جائے ساتھ وقعتیں ساری
لازوال قدرت کے زیر سایہ ہیں شاعر
آزما لے یہ دنیا اپنی قدرتیں ساری

0
55