غم نہیں کیجیے دریا کو اتر جانا ہے
چاہے فرعون کا لشکر ہو بکھر جانا ہے
آسماں بھی ترے ہونے سے سنور جانا ہے
کہکشاں کو ترے قدموں میں بکھر جانا ہے
کوئی امید نظر آے ستارہ بن کر
راہ میں صبح کی اب جاں سے گزر جانا ہے
زہر پھر زہر ہے تم صبر ذرا کر دیکھو
اک ذرا دیر میں اس کا بھی اثر جانا ہے
ہے یہ دنیا جو سراۓ تو مسافر تم ہو
ایک دن لوٹ کے تم کو بھی تو گھر جانا ہے

0
53