جس دیئے میں تیل کم ہو وہ بھلا کب تک جلے
خود بخود بجھ جائے گا وہ جل سکے جب تک جلے
چند لمحوں کے لئے جلنا کوئی جلنا نہیں
تیرگی جب تک رہے باقی دِیا تب تک جلے
شمعِ علم ایسی ہو جس سے ہر جگہ پھیلے ضیا
وہ چراغِ علم کیا جو طاقِ مکتب تک جلے
آگ تو بستی جلا کر ایک شب میں بجھ گئی
خوف کے شعلے جو بھڑکے تو کئی شب تک جلے
کچھ دیئے مخصوص تھے دیر و حرم کے واسطے
وہ جلے جب بھی حصارِ صحن ِمذہب تک جلے
اُس کے شعلے ساری دنیا کو جلادیتے ، مگر
طور کو یہ حکم تھا وہ مرضی رب تک جلے
شاعرؔ اِس کا بھی تعین کچھ تو ہونا چاہئے
آتشِ ظلم وستم میں زندگی کب تک جلے

0
7