زیست پیرائیہ اظہار سے مجہول ہوئی
منجمد خاک تھی کچلی گئی تو دھول ہوئی
مصلحت کیش ہوئیں جتنی دعائیں مانگیں
جو نہ مانگی تھی کبھی وہ دعا مقبول ہوئی
عشق انسان کی فطرت کا تقاضہ بھی تو ہے
عذر کوئی بھی ہو پر بات تو معقول ہوئی
زندگی ہی کے تصرف میں ہے سارا عالم
پھر بھی ناکامی حسرت پہ یہ محمول ہوئی
محروم از لطف مگر تابع احساس خرد
اس حوالے سے تو یہ زندگی معقول ہوئی
فکر کو سرعت پرواز ملی جب شاعر
عقل نادیدہ کرامات میں مشغول ہوئی

56