جہاں تک وُسْعَت قلب نظر ہے
یہ عالم بھی وہیں تک معتبر ہے
نہ سایہ ہے نہ دیواریں نہ در ہے
جہاں رہتا ہوں میں یہ بھی تو گھر ہے
ترے ہر گام پراس کی نطر ہے
تجھے اےبے خبر اس کی خبر ہے؟
نہیں معلوم کچھ اس کے علاوہ
زمیں ہے آسماں ہے اور سفر ہے
یہ مانا گفتگو بھی ایک فن ہے
مگر خاموش رہنا بھی ہنر ہے
ہمیں اس کی حقیقت سے غرض کیا
یہ دنیا تو فقط اک رہگزر ہے
اسی کا بندہ بے دام ہوں میں
نظر آتا نہیں ہے جو مگر ہے
تقاضا ہے یہی فطرت کا "شاعر"
جو قطرہ قید ہو جائے گہر ہے

97