مہلتِ زندگی بہت کم ہے
لو دیے کی بہت ہی مدھم ہے
آگ پانی کا کیسا سنگم ہے
دل میں شعلہ تو آنکھ پرنم ہے
زرد رنگت ،خزاں بھی پت جھڑ بھی
تجھ سے مانوس کتنا موسم ہے
دیکھو طوفاں نہ لے اڑے اس کو
امن کے ہاتھ میں جو پرچم ہے
کتنی بےکیف زندگی ہے تیری
سُر ہے نا تال نا ہی سرگم ہے
ان کے تیور سے لگ رہا ہے یہی
دوستوں کا مزاج برہم ہے
چند تاروں نے رو دیا شاعر
باغباں کہہ رہا ہے شبنم ہے

0
7