پڑیں گے اُس پہ نہ ہرگز کبھی زوال کے ہاتھ |
ہوں جس پہ سایہ فگن ربِ ذوالجلال کے ہاتھ |
بوقتِ موت سکندر نے یہ وصیّت کی |
کہ رکھے جائیں کفن سے مرے نکال کے ہاتھ |
بھرا ہوا اُسے دیکھا نہیں کبھی ہم نے |
اُٹھائے پھرتے ہیں کشکول جو سوال کے ہاتھ |
ڈبو نہ دے وہ کہیں اپنے ساتھ آپ کو بھی |
کہ ڈوبتے کو لگائیں ذرا سنبھال کے ہاتھ |
بلندیوں سے گرا دیتے ہیں وہ پستی میں |
سرِ عروج پہ پڑتے ہیں جب زوال کے ہاتھ |
پہاڑ ظلم کے مظلومیت ہی پر ٹوٹے |
کبھی نہ توڑے گئے ظلم کی مجال کے ہاتھ |
ستارے فکر کے لاتے ہیں توڑکر شاعرؔ |
بلندیوں پہ پہنچ کر مرے خیال کے ہاتھ |
معلومات