دیکھنا چاہوں جو دکھائی دے
منتشر لمحوں کو اکائی دے
عشق کو ذوق خود نمائی دے
مَظْہَر زات تک رسائی دے
کتنی حساس ہے سماعت بھی
کوئی سوچے مجھے سنائی دے
اب کہاں اپنے آپ کو ڈھونڈوں
آئینے میں بھی نا دکھائی دے
ذرہ ذرہ سوال بن جائے
گر مجھے اذن لب کشائی دے
وقعت زیست کم نا ہو جائے
دل کو کچھ درد آشنائی دے
اب تو تضحیک انکساری بھی
دَعْوَت رقص خود ستائی دے
میں گرفتار زات ہوں شاعر
اک دعا! جو مجھے رہائی دے

46