کروں میں استعاروں میں بیاں کیا
سمجھ لیں گے نہ وہ میری زباں کیا
نظر کو ہے فَریبِ آسماں کیا
پَسِ منظر بھی ہے منظر نہاں کیا
وہی ہونا ہے جو ہونا لکھا ہے
تو پھر ہَنگامَۂ سُود و زِیاں کیا
تقاضائے خودی ہے بے نیازی
جبیں شوق کیا اور آستاں کیا
جنوں آثار ہے ماحول ہر سو
اسے کہتے ہیں نَیرَنگ جہاں کیا

0
96