Circle Image

Naveed Ahmed Shakir

@Shakirjee15

Naveed Ahmed Shakir

میٹھے الفاظ کے کرم ہوتے ہیں
کتنے کمزور سب بھرم ہوتے ہیں
خوش فہمی عمر بھر رہی خوش فہمی
غم کیسے بانٹنے سے کم ہوتے ہیں

0
23
خاموشی سے خاموش ہونے کا ارادہ تھا مرا
جینا پڑا کہ بوجھ بھی تو کچھ زیادہ تھا مرا
سارے زمانے نے عنائت کیا جو بھی سہنا پڑا
یوں ہی ستم بھولا نہیں دل بھی کشادہ تھا مرا

0
44
خاموشی سے خاموش ہونے کا ارادہ تھا مرا
جینا پڑا کہ بوجھ بھی تو کچھ زیادہ تھا مرا
سارے زمانے نے عنائت کیا جو بھی کہنا کیا
یوں ہی ستم بھولا نہیں دل بھی کشادہ تھا مرا

0
19
دوستوں نے فقط کی ہے ضد جلنے کی
انتہا کر رہی ہے ہوا چلنے کی
جل گئے ہیں نظر جو نہیں آ رہے
کوئی صورت نہیں اب کبھی ملنے کی

0
18
چند پیسوں پہ نیلام ہو جاتے ہیں
لوگ سستے میں بدنام ہو جاتے ہیں
ساتھ ہونا ضروری تھا اک دوست کا
یاد رکھنا کہ سب کام ہو جاتے ہیں

0
43
اگر تُو پاس آ جائے
محبت راس آ جائے
دعا اتنی ہے میری اب
تجھے احساس آ جائے
بڑی اچھی ہے خاموشی
جگہ حساس آ جائے

0
1
65
پاس ہے جو اُسی میں گزارا کرے
اور دل بھی بھلا کیا ہمارا کرے
آج ہے ہر کسی کو تری آرزو
کوئی چارا بھی اب کیا بیچارا کرے
سب ہے تیری محبت کی نظرو کرم
جان نکلے تُو جب بھی اشارا کرے

83
جب سے تری ہر بات میں رہنے لگے
دشمن مرے اوقات میں رہنے لگے
یہ بات بھی ان کو گوارا کیسے ہو
ہم جو ترے دن رات میں رہنے لگے
اب ہے خدا حافظ ترے اس عشق کا
عاشق بھی اب جذبات میں رہنے لگے

53
عشق میں جو خسارا ڈھونڈتے ہیں
بھول جانے کا چارا ڈھونڈتے ہیں
آؤ مل کر دوبارا ڈھونڈتے ہیں
جان سے جو تھا پیارا ڈھونڈتے ہیں
آنکھ سورج کی طرف ہم اٹھا کر
آسماں پے ستارا ڈھونڈتے ہیں

77
لوگ اس عشق میں کم خواب تھے کتنے
ایک حسرت مگر بے تاب تھے کتنے
ذکر جب بھی ہو ان کاتو ادب سے ہو
لوگ تو سادہ تھے نایاب تھے کتنے
ڈس رہا ہے کسی کو آج اک اک پل
یاد ہے ماضی میں شاداب تھے کتنے

32
نبھا کر رشتُوں کو ہم لوگ فن کاری نہیں کرتے
تعلق ہو جہاں اُن سے اداکاری نہیں کرتے
مقدم رکھتے ہیں ہم دوستوں کو دشمنوں کو بھی
کسی بھی حال میں ہم کوئی عیاری نہیں کرتے
کیا ہے فیصلہ ایمانداری سے کیا جب بھی
کوئی بھی ہوکسی کی بھی طرفداری نہیں کرتے

45
جو فرصت ملے پوچھنا آپ سب سے
کیا جب تجھے یاد تو کیا ادب سے
کہیں گے نہیں کچھ زباں سےکسی کو
ہمیں لوگ سب جانتے ہیں نسب سے
خدا جانے کب آئے گا ملنے ہم سے
بہت منتظر ہیں نگا ہیں یہ کب سے

0
48
چلے گا نہیں اب تو چارا کسی کا
کہ خود ہو گیا ہوں میں سارا کسی کا
اُسے بھول کربھی نہیں بھول سکتا
کہ یوں قرض میں نے اتارا کسی کا
خیالوں میں تُو خوابوں میں بھی مرے تُو
ترے بن نہ ہو گا گزارا کسی کا

0
57
تیرے بن آج کل یاد کچھ بھی نہیں
خود کو کچھ کچھ برا جان لیتا ہوں میں
اک غلامی ہے آزاد کچھ بھی نہیں
اے خدا کیا ہوا ہے زمانےکو اب
سب نظر میں ہیں آباد کچھ بھی نہیں
وقت تھا یار تھے پر بغاوت نہ کی

54
یہ پیار بھرے رستے ہموار نہ تھے اتنے
ملنے کے ترےہم کو آثار نہ تھے اتنے
احساس تجھے ہوتا تو پاس مرے ہوتا
ہم تیری محبت سے سرشار نہ تھے اتنے
منزل کوئی مل ہی جاتی ساتھ ترا ہوتا
جو لوگ ملے ہم کو درکار نہ تھے اتنے

41
جسے دیکھ کر کبھی پکارا نہیں گیا
وہی شخص میرے دل سے سارا نہیں گیا
جو لکھا بہا دیا اُسے یا جلا دیا
کوئی خط تری طرف ہمارا نہیں گیا
تری یاد میں رہا کبھی آگ سے لڑا
جلا تو بہت ہے پر شرارا نہیں گیا

0
36
احباب سارے مہرباں ہونے لگے
جب سے وہ میرے ترجماں ہونے لگے
تم ساتھ ہو تو پھر نہیں ہے غم کوئی
سب حوصلے میرے جواں ہونے لگے
جب بھی ملے وہ پیار سےاپنا لگے
کیاکیا نجانے اب گماں ہونے لگے

0
67
بچ گئی سانسیں نشانی زندگی کی
بس یہی ہے مہربانی زندگی کی
بات جو ہر ایک ما نی زندگی کی
پھر گئی تھی بدگمانی زندگی کی
چھین کر چلتی رہی یہ ہر کسی کو
دیکھ لی ہے میزبانی زندگی کی

0
44
لڑ پڑے ہیں ترے ہر طلب گار سے
فرق پڑتا نہیں اب تو مقدار سے
جو کَبھی وہ ملے تو ملے پیار سے
عشق میں گر گئے اپنے معیار سے
تم اِسے عاشقی سمجھو یا بےکسی
گلیوں میں پھرتے ہیں بن کے بیزار سے

0
31
تھے مدت سے بے چین بے تاب سارے
بکھر ہی گئے ہیں مرے خواب سارے
کہیں سے مجھے وہ ملے تو سہی اب
سبھی کھو گئے ہیں جو اسباب سارے
تعلق پُرانا بہت آپ سے تھا
بھلا ہی دیئے تُو نے آداب سارے

0
32
چاہت میں کیا کیا نہیں کیا
اک شکوہ بھی ذرا نہیں کیا
رکھ لو قابو میں سوچ کو تم
سب کیا پر کچھ برا نہیں کیا
سوچو کیوں آج بھی کسی نے
خود کو تم سے جدا نہیں کیا

0
31
آج ملنے آؤ تم آج فرصت ہے ابھی
آخری دیدار کی ایک حسرت ہے ابھی
اب خدا جانے کیا ہے چمک اُس آنکھ میں
یوں لگے دل میں کوئی تو شرارت ہے ابھی
جو کہے دنیا مجھے سچ یہی لگتا ہے بس
دور ہے لیکن اُسے بھی محبت ہے ابھی

0
43
شجر جیسے ہو جائیں برسات کے بعد
ہو جاتے ہیں ویسے ملاقات کے بعد
مِرے دل میں محفوظ ہیں آج بھی نقش
نہ آئی کوئی رات اُس رات کے بعد
خبر آپ کو ہے کیا ہے مرا عشق
کہ ہر ذات مانی تِری ذات کے بعد

0
30
اندیشہ پہلے سے تھا تجھ سے بچھڑ جانے کا
پھر بھی جگر دیکھ لو تم اپنے دیوانے کا
تجھ سے گلہ ہی نہیں کیوں پھر شکایت کروں
خود ہی سبب بن گیا اس دل کے ویرانے کا
اب وہ زمانہ نہیں دونوں بدلنے لگے
کچھ بھی نہیں فائدہ اب تجھ کو شرمانے کا

0
38
عشق تو معصوم ہے
آپ کو معلوم ہے
پاس رہ کر بھی کوئی
پیار سے محروم ہے
بے بسی ہے زندگی
آج کل محکوم ہے

0
33
یاد آتی ہے جو کل کی زندگی
آج لگتی ہے دو پل کی زندگی
اب کسی آفت سے ڈر لگتا نہیں
کس نے پائی ہے ازل کی زندگی
بولنے سے فرق پڑتا ہے کہاں
ہے بہت بہتر عمل کی زندگی

0
48
دل یہی دعا کرے
آؤ تم خدا کرے
دیر سے ملے نہیں
آج حوصلہ کرے
آپ ساتھ ہی رہو
زندگی عطا کرے

0
35
زندگی راس آنے میں کچھ دیر ہے
جشن کوئی منانے میں کچھ دیر ہے
جو ہوا سُو ہوا اب نہیں روکیں گے
تیرے دل کو چرانے میں کچھ دیر ہے
آپ آنا سکوں سے کہ جلدی نہیں
آج محفل سجانے میں کچھ دیر ہے

0
34
ابھی روٹھنا نہیں منایا نہ جائے گا
جو مجبور آج ہوں تو آیا نہ جائے گا
کہاں اس قدر عذاب تھی زندگی مری
کوئی آنسو آنکھ میں سجایا نہ جائے گا
یوں تو درد سے بھری پڑی ہے یہ زندگی
کوئی غم بھی ہجر کا اٹھایا نہ جائے گا

0
41
چھوڑ کے تجھے کس در جاؤں تو بہتر ہے
لوٹ کر میں اپنے گھر جاؤں تو بہتر ہے
چہروں پر نجانے تیور کیا کیا ہوں تب
اشک آنکھ میں جو بھر جاؤں تو بہتر ہے
تجھ کو بھول جانے کی تھی امید مدت سے
کام آج یہ بھی کر جاؤں تو بہتر ہے

0
32
بڑی بے چین حالت ہے
عجب سی ایک وحشت ہے
بضد ہے دل مرا اب بھی
محبت تو محبت ہے
تجھے پانے کی خواہش ہے
زمانے کو عداوت ہے

0
17
کبھی خود کو کبھی دل کو جلا کر رکھ لیا ہم نے
عمر ساری یہی اک کام ہی کر کے جیا ہم نے
اگر چاہوں نہیں ہوتا گلہ مجھ سے نہیں ہوتا
زمانے نے ہمیں جیسے کہا ویسے کیا ہم نے

0
98
جس طرح سے بھی کٹ جائے تو بہتر ہے
روح واپس پلٹ جائے تو بہتر ہے
جو کسی کی نظر میں اچھا ہی نہ ہو
صفئہ ہستی سے مٹ جائے تو بہتر ہے

0
59
وہی ہے زندگی جو محبت میں گزاری
جو باقی تھی عمر وہ ملامت میں گزاری
وفا ہوتی کیا ہے یہی پوچھا تھا اس سے
یوں ساری رات اس نے وضاحت میں گزاری

0
68
رشک آتا ہے مجھے اس مہرباں پر
ظلم کرتا ہے جو سارے میری جاں پر
زندگی ہم نے گزاری جس گماں پر
اب یقیں باقی نہیں ہے اس مکاں پر
جو ہوا سو ہو گیا دکھ اور بھی ہے
دل سے نکلے گے تو جائیں گے کہاں پر

0
58
کچھ لوگ زندگی میں آئے عذاب بن کر
ملنا پڑا ہے پھر بھی جن کو گلاب بن کر
تو نے عطا کیا ہے یادوں کا اک خزانہ
ہر شام جو ملے مجھ کو احتساب بن کر
سب زخم دیکھ کر جو ہنستے ہیں اس جہاں میں
پھر کیوں رہے کوئی دنیا میں کتاب بن کر

0
36
کچھ لوگ زندگی میں آئے عذاب بن کر
ملنا پڑا ہے پھر بھی جن کو گلاب بن کر
تو نے عطا کیا ہے یادوں کا اک خزانہ
ہر شام جو ملے مجھ کو احتساب بن کر
سب زخم دیکھ کر جو ہنستے ہیں اس جہاں میں
پھر کیوں رہے کوئی دنیا میں کتاب بن کر

0
22
زندگی کی جستجو میں دربدر رہنا پڑا ہے
ساتھ تیرا ہجر بھی تو مستقل سہنا پڑا ہے
اس قدر ٹوٹا ہوں مطلب ضبط بھی باقی نہیں ہے
آج شرمندہ ہیں جو آنسو کو بھی بہنا پڑا ہے

0
56
ابھی جو آزمانا ضروری ہو گیا ہے
کیا ہو تم بتانا ضروری ہو گیا ہے
کسی کو راس آئے نہیں تیرے ڈرامے
تجھے اب چھوڑ جانا ضروری ہو گیا ہے

0
62
زندگی بھی مدار میں نہیں ہے
کچھ بھی تو اختیار میں نہیں ہے
کوئی اپنا دیار میں نہیں ہے
کو ئی لذت بہار میں نہیں ہے
جانتا ہے خدا کہ درد میں ہوں
جو کسی کے شمار میں نہیں ہے

0
76
مرا رستہ کوئی اور ہے مری منزل کوئی اور ہے
مجھے مطلوب تھا کوئی مجھے حاصل کوئی اور ہے
منافق جو نہیں ہوں تو بڑا بھی تو نہیں ہوں میں
تری محفل کوئی اور ہے مری محفل کوئی اور ہے
یقیں آیا نہیں مجھ کو کئی دن بھول جانے پر
کہوں کیسے کہ تیری یاد سے غافل کوئی اور ہے

0
41
یہاں بزدل لوگوں کو کام سب ہموار ملتے ہیں
یہ ہمت والوں کو ہی راستے دشوار ملتے ہیں
کہی ہے بات سچ دنیا نے دل بھی مانتا ہے وہ
بڑے ہوں جو ارادے تو بڑے کردار ملتے ہیں
ہمیشہ یہ نظر رکھتے ہیں اپنی ایک منزل پر
منافق لوگ رستے میں انھیں ہر بار ملتے ہیں

0
59
زندگی تو رہی آرزو نہ رہی
بعد تیرے کوئی جستجو نہ رہی
آج کل کوئی محفل اچھی نہ لگے
آپ سے منسلک گفتگو نہ رہی

0
85
غلط بات برداشت کرنا پڑی ہے
یہی زندگی ہے تو اتنی بڑی ہے
ابھی ہار جانے کو دل چاہتا ہے
نئی جنگ ہر اک قدم پر لڑی ہے

0
93
چھوڑ کے تجھے کس در جاؤں تو بہتر ہے
لوٹ کر میں اپنے گھر جاؤں تو بہتر ہے
چہروں پر نجانے تیور کیا کیا ہوں تب
اشک آنکھ میں جو بھر جاؤں تو بہتر ہے
تجھ کو بھول جانے کی تھی امید مدت سے
کام آج یہ بھی کر جاؤں تو بہتر ہے

0
117
بچ گئی سانسیں نشانی زندگی کی
بس یہی ہے مہربانی زندگی کی
بات جو ہر ایک ما نی زندگی کی
پھر گئی تھی بدگمانی زندگی کی
چھین کر چلتی رہی یہ ہر کسی کو
دیکھ لی ہے میزبانی زندگی کی

0
81
گھڑی گھڑی لڑائی ہو فساد ہو
مرے جو قول و فعل میں تضاد ہو
کھڑا ہوں در پہ تیرےمنتظر ہوں میں
بھرم ہی رکھ لیناجو اعتماد ہو

0
53
آ گئی محبوب میں اب نزاکت کیا کیا
عاشقوں پے گزرے گی پھر قیامت کیا کیا
ایک مدت سے طلب گار ہیں دیدار کے
بے قراری سے بگڑتی ہے حالت کیا کیا
اس جہاں میں آنے سے پہلے کوئی جرم تھا
جو ملی ہیں اس جہاں میں رفاقت کیا کیا

0
54
تمھیں تھوڑا سہی لیکن وفا پے بھی یقیں ہوتا
جدا تم سے مری جانِ جگر پھر یوں نہیں ہوتا
جفا ہر ایک سہ لی ہجر کا غم اب ستائے ہے
غضب تھا درد جو منظور یہ بھی ہم نشیں ہوتا

0
47
سر کو کبھی ہم جھکا نہ سکے
دکھ زندگی کے مٹا نہ سکے
دل کو رہی اک طلب ہمیشہ
خواہش کوئی اور بنا نہ سکے
جو ساتھ رہا قدم قدم پر
ہم ہاتھ اُسے لگا نہ سکے

0
46
ایسی کوئی سزا دیں محبت کو
آجاؤ ہم بھلا دیں محبت کو
دنیا میں جو کہیں کا نہیں چھوڑا
تم ہی کہو کیا دیں محبت کو

0
45
جس محبت پر عمر بھر ناز کیا
آج اُس نے بھی نظر انداز کیا
اک محبت صرف مانگی آپ سے
یہ کیا تُو نے مرے ہمراز کیا
نکلے گی جو آہ دل سے درد میں
اب دبا دو گے مری آواز کیا

0
54
جو مسیحا کی ساری نظر ہو گئی
کیوں مری زندگی مختصر ہو گئی
کچھ نہیں مانگتا سب عطا ہے تری
اک دعا جو مری معتبر ہو گئی

0
57
کبھی مجبور ہم بھی اِس قدر کب تھے
ہمارے لفظ پہلے بے اثر کب تھے
چرائی ہے نظر یوں زندگی نے اب
ملاقاتوں کے لمحے مختصر کب تھے

0
43
محبت تو محبت ہے یہ جاری تو رہے گی
اگر اُن کو نہیں ہے پھر ہماری تو رہے گی
کسی اور ہی ہوا میں ہوں خبر کچھ بھی نہیں ہے
کیا ہے عشق جو تم سے خماری تو رہے گی
نجانے دل میں کیا آیا الگ کیوں ہو گیا ہے
جدائی بھی سزا ہے بے قراری تو رہے گی

0
56
لوگ مجھ کو میعار سے جانتے ہیں
ایک تیرے ہی پیار سے جانتے ہیں
یاد رہتا ہے کس کو چہرا یہاں پر
لوگ سب کو کردار سے جانتے ہیں

0
55
ایک مدت سے تھی جستجو بھی گئی
پھول جو سوکھے تو خوشبو بھی گئی
ہر گھڑی جو تجھے پانے کی تھی طلب
ہم گئے تو تری آرزو بھی گئی

0
47
ترے حصول کے علاوہ خواب اور بھی ہیں
فقط یہ زندگی نہیں عذاب اور بھی ہیں
دلیل عشق میں تری ہی معتبر رہی
مری تو زندگی میں نصاب اور بھی ہیں

0
35
یہ سوچا نہ تھا کہ اس قدر دوریاں ہوں گی
ملا ہی نہیں تو اس کی مجبوریاں ہوں گی

0
46
تھے مدت سے بے چین بے تاب سارے
بکھر ہی گئے ہیں مرے خواب سارے
کہیں سے مجھے وہ ملے تو سہی اب
سبھی کھو گئے ہیں جو اسباب سارے
تعلق پُرانا بہت آپ سے تھا
بھلا ہی دیئے تُو نے آداب سارے

0
64
تِرا زندگی بھر سہارا نہ ہوتا
خدایا مِرا بھی گزارا نہ ہوتا
تمھیں بھول جاتا بڑی دیر پہلے
تِرے روکنے کا اشارا نہ ہوتا

0
45
اندیشہ پہلے سے تھا تجھ سے بچھڑ جانے کا
پھر بھی جگر دیکھ لو تم اپنے دیوانے کا
تجھ سے گلہ ہی نہیں کیوں پھر شکایت کروں
خود ہی سبب بن گیا اس دل کے ویرانے کا
اب وہ زمانہ نہیں دونوں بدلنے لگے
کچھ بھی نہیں فائدہ اب تجھ کو شرمانے کا

106
عشق تو معصوم ہے
آپ کو معلوم ہے
پاس رہ کر بھی کوئی
پیار سے محروم ہے
بے بسی ہے زندگی
آج کل محکوم ہے

0
38
اگر تُو پاس آ جائے
محبت راس آ جائے
دعا اتنی ہے میری اب
تجھے احساس آ جائے
بڑی اچھی ہے خاموشی
جگہ حساس آ جائے

0
68
یاد آتی ہے جو کل کی زندگی
آج لگتی ہے دو پل کی زندگی
اب کسی آفت سے ڈر لگتا نہیں
کس نے پائی ہے ازل کی زندگی
بولنے سے فرق پڑتا ہے کہاں
ہے بہت بہتر عمل کی زندگی

0
37
دل یہی دعا کرے
آؤ تم خدا کرے
دیر سے ملے نہیں
آج حوصلہ کرے
آپ ساتھ ہی رہو
زندگی عطا کرے

0
61
زندگی راس آنے میں کچھ دیر ہے
جشن کوئی منانے میں کچھ دیر ہے
جو ہوا سُو ہوا اب نہیں روکیں گے
تیرے دل کو چرانے میں کچھ دیر ہے
آپ آنا سکوں سے کہ جلدی نہیں
آج محفل سجانے میں کچھ دیر ہے

0
47
ابھی روٹھنا نہیں منایا نہ جائے گا
جو مجبور آج ہوں تو آیا نہ جائے گا
کہاں اس قدر عذاب تھی زندگی مری
کوئی آنسو آنکھ میں سجایا نہ جائے گا
یوں تو درد سے بھری پڑی ہے یہ زندگی
کوئی غم بھی ہجر کا اٹھایا نہ جائے گا

0
44
اعتبار کے بدلے اعتبار ہوتا ہے
تو یہ قیمتی اشیا میں شمار ہوتا ہے
پاس بھی بھرم کا جو شخص رکھ نہیں سکتا
آج بھی وہی محفل سے فرار ہوتا ہے

0
51
زندگی کا رنگ اچھا تو ہے لیکن عارضی ہے
مبتلا ہوں بس اسی اک سوچ میں کیا لازمی ہے
منتظر ہیں یہ نگاہیں کوئی میرے در پہ آئے
ایک مدت ہو گئی ہے رابطہ بھی ملتوی ہے
ایک جب منزل ہو تو پھر چال بھی تو ایک ہی ہو
بس یہی سیکھا ہے دنیا نے بہتر عاجزی ہے

0
30
شجر جیسے ہو جائیں برسات کے بعد
ہو جاتے ہیں ویسے ملاقات کے بعد
مِرے دل میں محفوظ ہیں آج بھی نقش
نہ آئی کوئی رات اُس رات کے بعد
خبر آپ کو ہے کیا ہے مرا عشق
کہ ہر ذات مانی تِری ذات کے بعد

38
آج ملنے آؤ تم آج فرصت ہے ابھی
آخری دیدار کی ایک حسرت ہے ابھی
اب خدا جانے کیا ہے چمک اُس آنکھ میں
یوں لگے دل میں کوئی تو شرارت ہے ابھی
جو کہے دنیا مجھے سچ یہی لگتا ہے بس
دور ہے لیکن اُسے بھی محبت ہے ابھی

93
جان میری جان کوئی اور ہے
بات میری مان کوئی اور ہے
ہو گیا ہوں میں کسی کا ہم سفر
اب مری پہچان کوئی اور ہے
ناز تیرے ظلم پر ہے آج بھی
عشق کی یہ شان کوئی اور ہے

35
جس محبت پر عمر بھر ناز کیا
آج اُس نے بھی نظر انداز کیا
اک محبت صرف مانگی آپ سے
یہ کیا تُو نے مرے ہمراز کیا
نکلے گی جو آہ دل سے درد میں
اب دبا دو گے مری آواز کیا

56
لڑ پڑے ہیں ترے ہر طلب گار سے
فرق پڑتا نہیں اب تو مقدار سے
جو کَبھی وہ ملے تو ملے پیار سے
عشق میں گر گئے اپنے معیار سے
تم اِسے عاشقی سمجھو یا بےکسی
گلیوں میں پھرتے ہیں بن کے بیزار سے

0
52
چاہت میں کیا کیا نہیں کیا
اک شکوہ بھی ذرا نہیں کیا
رکھ لو قابو میں سوچ کو تم
سب کیا پر کچھ برا نہیں کیا
سوچو کیوں آج بھی کسی نے
خود کو تم سے جدا نہیں کیا

47
چہرا نہیں ملتا شناسا اب کوئی
ہم بھی کریں کس سے تقاضا اب کوئی
دل تو وہی ہے لوگ اُن جیسے کہاں
ممکن نہیں پھر سے تماشا اب کوئی
مل تو سہی مدت سے گم ہوں سوچ میں
کرنا ہے تجھ سے اک گلہ سا اب کوئی

49