| زندگی بھی مدار میں نہیں ہے | 
| کچھ بھی تو اختیار میں نہیں ہے | 
| کوئی اپنا دیار میں نہیں ہے | 
| کو ئی لذت بہار میں نہیں ہے | 
| جانتا ہے خدا کہ درد میں ہوں | 
| جو کسی کے شمار میں نہیں ہے | 
| اب کہاں جاؤں کیا تلاش کروں | 
| آپ جیسا ہزار میں نہیں ہے | 
| پہلے اک وار میں گراتے تھے تم | 
| دم نظر کے بھی وار میں نہیں ہے | 
| تم نہیں تو ترا خیال سہی | 
| دل کسی بھی فرار میں نہیں ہے | 
| ہر گھڑی راستے میں رہتے تھے جو | 
| آج وہ بھی قطار میں نہیں ہے | 
| اب ملیں کس امید پر تجھے ہم | 
| تُو بھی تو انتظار میں نہیں ہے | 
    
معلومات