| لڑ پڑے ہیں ترے ہر طلب گار سے | 
| فرق پڑتا نہیں اب تو مقدار سے | 
| جو کَبھی وہ ملے تو ملے پیار سے | 
| عشق میں گر گئے اپنے معیار سے | 
| تم اِسے عاشقی سمجھو یا بےکسی | 
| گلیوں میں پھرتے ہیں بن کے بیزار سے | 
| آنکھوں میں بھر کے کاجل چلے ہیں ابھی | 
| اب بچے کون ان نظروں کے وار سے | 
| کل تلک ساتھ تھے سائے کی طرح جو | 
| آج محروم ہیں تیرے دیدار سے | 
| رہتے ہیں یاد میں جو گرفتار سے | 
    
معلومات