آج ملنے آؤ تم آج فرصت ہے ابھی
آخری دیدار کی ایک حسرت ہے ابھی
اب خدا جانے کیا ہے چمک اُس آنکھ میں
یوں لگے دل میں کوئی تو شرارت ہے ابھی
جو کہے دنیا مجھے سچ یہی لگتا ہے بس
دور ہے لیکن اُسے بھی محبت ہے ابھی
جا چُکے ہیں چھوڑ کر جسم کے اعضا کئی
یاد کرنے کی مِرے پاس عادت ہے ابھی
روز مرتا ہوں مجھے ڈر کسی کا بھی نہیں
عشق سے بڑھ کر کوئی اور قیامت ہے ابھی

93