زندگی کا رنگ اچھا تو ہے لیکن عارضی ہے
مبتلا ہوں بس اسی اک سوچ میں کیا لازمی ہے
منتظر ہیں یہ نگاہیں کوئی میرے در پہ آئے
ایک مدت ہو گئی ہے رابطہ بھی ملتوی ہے
ایک جب منزل ہو تو پھر چال بھی تو ایک ہی ہو
بس یہی سیکھا ہے دنیا نے بہتر عاجزی ہے
ذائقے سب بھول چکا یاد بس اتنا ہے مجھ کو
یاد میں تیری وہی اک منفرد سی تازگی ہے
تو مقدر میں نہیں تو اس میں کوئی بہتری ہے
چار دن کی زندگی میں آج کا دن آخری ہے

0
29