لوگ اس عشق میں کم خواب تھے کتنے |
ایک حسرت مگر بے تاب تھے کتنے |
ذکر جب بھی ہو ان کاتو ادب سے ہو |
لوگ تو سادہ تھے نایاب تھے کتنے |
ڈس رہا ہے کسی کو آج اک اک پل |
یاد ہے ماضی میں شاداب تھے کتنے |
جوں جوں امید بڑھتئ گئی سب کی |
اُن کی ویرانی میں اسباب تھے کتنے |
کاٹ کے رکھ دیئے جو گھر کسی کے تھے |
روئے اس پیڑ کے سنجاب تھے کتنے |
دیکھ لی ہے شرارت اس زمانے کی |
تم جو تھے پاس تو احباب تھے کتنے |
آنکھ سوکھی ہوئی ہے آج کل شاکر |
معلومات