لوگ اس عشق میں کم خواب تھے کتنے
ایک حسرت مگر بے تاب تھے کتنے
ذکر جب بھی ہو ان کاتو ادب سے ہو
لوگ تو سادہ تھے نایاب تھے کتنے
ڈس رہا ہے کسی کو آج اک اک پل
یاد ہے ماضی میں شاداب تھے کتنے
جوں جوں امید بڑھتئ گئی سب کی
اُن کی ویرانی میں اسباب تھے کتنے
کاٹ کے رکھ دیئے جو گھر کسی کے تھے
روئے اس پیڑ کے سنجاب تھے کتنے
دیکھ لی ہے شرارت اس زمانے کی
تم جو تھے پاس تو احباب تھے کتنے
آنکھ سوکھی ہوئی ہے آج کل شاکر

32