جب سے تری ہر بات میں رہنے لگے
دشمن مرے اوقات میں رہنے لگے
یہ بات بھی ان کو گوارا کیسے ہو
ہم جو ترے دن رات میں رہنے لگے
اب ہے خدا حافظ ترے اس عشق کا
عاشق بھی اب جذبات میں رہنے لگے
کوئی قیامت سی اٹھی ہے شہر میں
کچھ لوگ اب صدمات میں رہنے لگے
مشہور تھے کل تک سخی کے نام سے
اب جانے کیوں خیرات میں رہنے لگے

53