تیرے بن آج کل یاد کچھ بھی نہیں
خود کو کچھ کچھ برا جان لیتا ہوں میں
اک غلامی ہے آزاد کچھ بھی نہیں
اے خدا کیا ہوا ہے زمانےکو اب
سب نظر میں ہیں آباد کچھ بھی نہیں
وقت تھا یار تھے پر بغاوت نہ کی
اب مرے پاس تعداد کچھ بھی نہیں
سوچ کر کچھ سمجھ کرزباں کو ہلا
ورنہ شاکر کی میعاد کچھ بھی نہیں

54