رشک آتا ہے مجھے اس مہرباں پر
ظلم کرتا ہے جو سارے میری جاں پر
زندگی ہم نے گزاری جس گماں پر
اب یقیں باقی نہیں ہے اس مکاں پر
جو ہوا سو ہو گیا دکھ اور بھی ہے
دل سے نکلے گے تو جائیں گے کہاں پر
مبتلا ہیں سارے اپنے اپنے غم میں
کون روئے گا مری اس داستاں پر
ساتھ اپنے روز کرتا ہوں عہد اک
ذکر اس کا اب نہ آئے گا زباں پر

0
59