اندیشہ پہلے سے تھا تجھ سے بچھڑ جانے کا
پھر بھی جگر دیکھ لو تم اپنے دیوانے کا
تجھ سے گلہ ہی نہیں کیوں پھر شکایت کروں
خود ہی سبب بن گیا اس دل کے ویرانے کا
اب وہ زمانہ نہیں دونوں بدلنے لگے
کچھ بھی نہیں فائدہ اب تجھ کو شرمانے کا
ہے یاد اک ذہن میں تڑپا رہی جو مجھے
ملتا نہیں راستہ اب کوئی مہ خانے کا
اب رات جو ختم ہے بجنے لگی شمع بھی
حافظ خدا ہے ابھی اس ایک پروانے کا

106