Circle Image

محمد کامران امجد

@M.kamran99

راہ بتلاؤ ہمیں خود کو ستائیں کیسے
خشک آنکھیں ہو گئیں اشک بہائیں کیسے
ہم نے تو لاکھ جتن کر کے بھی دیکھے لیکن
مانتا ہی نہ ہو جب وہ تو منائیں کیسے
آج تک حالتِ دل میری نہیں سمجھا وہ
کتنی چاہت ہے ہمیں اُس کی بتائیں کیسے

0
2
ایسے میں ہی جاں میں جاں ہوتی ہے
جب گھر کے آنگن میں ماں ہوتی ہے
جس کی ہر اک نہ میں بھی ہاں ہوتی ہے
ایسی ہستی بھلا کہاں ہوتی ہے
کامران

0
1
چاندنی نزدیک ہوتی جا رہی ہے
رات بھی تاریک ہوتی جا رہی ہے
میں تو حیراں ہو بھلا دینے کی میری
کیسے عادت ٹھیک ہوتی جا رہی ہے
لوگ ملتے ہیں بچھڑنے کے لیے بس
عشق کی تضحیک ہوتی جا رہی ہے

0
2
ہے ادا ایک یہی میری کہ پانا دل کا
مجھ کو لے ڈوبے گا میرا ہی ستانا دل کا
گو ذرا سی ہو خلش اور چلانا دل کا
یاد کر کر کے اسے اشک بہانا دل کا
ملتے ملتے وہ ترا مجھ سے نہ پھر مل پانا
یاد آتا ہے مجھے تیرا بہانا دل کا

0
8
سنو! تم آنکھوں سے بارش نہ کرنا
محبت میں کوئی خواہش نہ کرنا
یوں دیکھے جانا، یوں پرکھے بھی جانا
مگر اپنے لیے سازش نہ کرنا
بُھلا دے جو محبت اُس کی اے دل!
تم ایسی ویسی بھی ورزش نہ کرنا

0
9
ہے غم سے بھری جو زندگی ترک کر دوں
خوشی سے رہوں میں اور غمی ترک کر دوں
کسی نئے فن کو سیکھ کے دل لگاؤں
میں سوچ رہا ہوں شاعری ترک کر دوں
نئے نئے رنگ دیکھوں میں زندگی کے
مزاج بدل لوں سادگی ترک کر دوں

0
6
یہ لفظوں بھری ہے زندگی ترک کر دوں
میں سوچ رہا ہوں شاعری ترک کر دوں
نئے نئے رنگ دیکھوں میں زندگی کے
مزاج بدل لوں سادگی ترک کر دوں
غرور سجا لوں ماتھے پہ اپنے میں بھی
غرور کروں تو عاجزی ترک کر دوں

0
3
عشق کی دنیا میں، میں کتنا حسیں ہوں
خود ہی سجدہ خود ہی محرابِ جبیں ہوں
کتنی خاموشی ہے میرے دل کے اندر
ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں
اپنی کم یابی پہ مجھ کو دوش مت دو
دیکھ لو اب تم کہیں ہو میں وہیں ہوں

8
راز ویسے بھی بتائے نہیں جاتے
سب کے تو ناز اُٹھائے نہیں جاتے
اک نہ اک روز دِکھانے ہی پڑیں گے
آنکھوں میں خواب چھپائے نہیں جاتے
لوگ دریا بھی بہانے پہ بہا دیں
ہم سے تو آنسو بہائے نہیں جاتے

0
2
نام جس کا لبوں پر عام رہتا ہے
وہ خیالوں میں اب ہر شام رہتا ہے
جاگنے پر کریں بے چین تعبیریں
جب تلک سوتا ہوں آرام رہتا ہے
یوں نہ منہ پھیر کر ایسے بھی تم جاؤ
زندگی مجھ کو تجھ سے کام رہتا ہے

0
6
تارے ہیں اپنی دھن میں ایسے رات پھیلائے ہوئے
جیسے کوئی مانگے ہے منت ہات پھیلائے ہوئے
خط بھی لکھا، سب سے کہا بھی ہے، خبر پھر بھی نہیں
کہنے کو مدت ہو گئی ہے بات پھیلائے ہوئے
جیسے کُھلے بازو ہوں آمد پر تری ایسے مرا
دل دھڑکے ہے اب تک کئی جذبات پھیلائے ہوئے

0
14
اتنا آساں جواب لکھ سکتا ہوں
پانی کو میں شراب لکھ سکتا ہوں
اپنے حق میں عذاب لکھ سکتا ہوں
کتنے دیکھے ہیں خواب لکھ سکتا ہوں
شاعر ہوں چاہوں تو تری زلفوں پر
میں اک پوری کتاب لکھ سکتا ہوں

0
5
45
چاند چمکا ہے رات سے دور رہ کر
دل بھی دھڑکا ہے بات سے دور رہ کر
اب چمک مجھ میں باقی ہے ایسے، جیسے
چمکے کنگن پر ہات سے دور رہ کر
قید ہو جاتے کب کے ہم بھی تو لیکن
دیکھی دنیا جو گھات سے دور رہ کر

0
13
فلک کے گھر آئے چاند تو مجھے بھی بتانا
کہیں نظر آئے چاند تو مجھے بھی بتانا
ابھی تلک گردش میں ہیں آسماں پہ ستارے
وہ ہم سفر آئے چاند تو مجھے بھی بتانا
وہ آسماں سے ہوتا، قیام کرتا، زمیں پر
اگر اُتر آئے چاند تو مجھے بھی بتانا

0
4
انگلیوں سے ہم تری زُلفیں سنواریں گے کیونکہ
تیرے تو معیار کی بازار میں کنگھی نہیں ہے
میں نے دل کے چاروں کونوں میں گھٹن ہی پائی ہے بس
جس کے کُھلنے سے ہوا آئے وہ اب کھڑکی نہیں ہے
دل لگا کے اس سے ہم اپنا بنا لیں گے مری جاں!
دیکھو اچھی ہے مگر وہ ایسی بھی لڑکی نہیں ہے

0
5
ہم یوں لمحے گُزارنے میں لگے ہیں
سب کو دل سے اُتارنے میں لگے ہیں
وہ سُنتا ہی نہیں ہماری جسے ہم
ہر پل، ہر دم پُکارنے میں لگے ہیں
آنکھیں، رخسار، ناک، لب، آپ بھلا
کس کی خاطر نکھارنے میں لگے ہیں

0
5
بس ترے خواب دیکھے اچھی نیند
میرے تن میں بسی ہے سچی نیند
اپنی دھڑکن سے آنکھ کُھل جائے
دیکھو کتنی ہے میری کچی نیند
میری آنکھوں کو یوں ستانے آئے
جیسے کوئی ہو چھوٹی بچی نیند

0
9
کوئی خاص قربت نہیں ہے
مجھے اب محبت نہیں ہے
کہیں اور میں دل لگا لوں
مجھے تو اجازت نہیں ہے
یوں ہی لوگ ایسا کہیں گے
محبت میں عزت نہیں ہے

0
15
میں خود کو کہیں چھوڑ آیا
گماں کیا یقیں چھوڑ آیا
خیالوں کی محفل میں بیھٹا
میں سب کچھ وہیں چھوڑ آیا
یوں سجدہ درِ یار پر تھا
میں اپنی جبیں چھوڑ آیا

0
6
اُس در ﷺ کے جو غلام ہو جاتے ہیں
اچھے وہ صبح و شام ہو جاتے ہیں
اُن کے ﷺ کرم سے کرنے نہیں پڑتے
پھر خود بخود وہ کام ہو جاتے ہیں
جو پڑھتے ہیں درود محمدﷺپر
کیا اونچے اُن کے نام ہو جاتے ہیں

0
6
مجھ پر بھی کچھ رحمت کیجیے نا
آقا ﷺ یہاں راحت کیجیے نا
بے چین رہتا ہے دل اے آقاﷺ
اب دید کی صورت کیجیے نا
میں ناز قسمت پر پھر کروں گا
اچھی مری قسمت کیجیے نا

0
6
تان لی اُس نے چادر سی نور کی بھی
مل گئی جس کو قربت حضور ﷺ کی بھی
اُن نگاہوں کا ﷺ جس پر کرم ہو گیا
دیکھ لے گا وہ پھر ہر شے دور کی بھی
میرا دل دیکھنے کو ہے جلوہِ نور ﷺ
اللہ ! ہمت دلِ کوہِ طور کی بھی

0
10
جو یاد ہر پل آئے، یعنی وہ تم ہو
آ کر نہ پھر وہ جائے، یعنی وہ تم ہو
غمگین مجھ کو کوئی اور شے رکھتی ہے
لیکن خوشی جو لائے، یعنی وہ تم ہو
اب زندگی تو دھوپ جیسی لگتی ہے
لیکن گھنے سے سائے، یعنی وہ تم ہو

0
10
شام ہوتے سو گئے اور لکھا کچھ بھی نہیں
اب بہت دن ہو گئے اور لکھا کچھ بھی نہیں
اب ملی فرصت تو میں لکھنے بیھٹا ہوں مگر
آج ورقے رو گئے اور لکھا کچھ بھی نہیں
نیند سی آنکھیں کُھلیں، اشکوں سے پلکیں بھی نم
آنکھیں ایسی دھو گئے اور لکھا کچھ بھی نہیں

0
10
کیا حال ہے میرا؟ حال معلوم نہیں
بس بِیت گئے ہیں سال، معلوم نہیں
ہم بچتے بچاتے آ گئے، اللہ! مگر
کس کس نے بچھائے جال، معلوم نہیں
میں سامنے آئینہ رکھے پوچھتا ہوں
مجھ میں ہے کوئی جمال، معلوم نہیں

8
ہیں پھول جیسے سنگ، ہاتھوں میں یہاں
کروں گا کیا میں؟ ایسے میں چمن لے کر
کہیں تو کرچی کرچی بکھرے گی مری
کہاں میں جاؤں؟ کانچ سا بدن لے کر
کامران

9
پہلو میں پلتے سب غم بدل جاتے ہیں
آنکھ کُھلتی ہے موسم بدل جاتے ہیں
جب کبھی عشق پر کھولنے لگتا ہے
ہائے! کم بخت پھر ہم بدل جاتے ہیں
بھیگی آنکھیں بھروسے کے قابل نہیں
لوگ تو آنکھیں بھی نم بدل جاتے ہیں

20
خوشی نہیں ملتی اور غمی سے تھک گئے ہیں
یہ بھی نہیں ہے ہم ہر کسی سے تھک گئے ہیں
جو پوچھ لیں حالِ دل کسی سے ہم، کہیں سب
گُزر رہے ہیں دن زندگی سے تھک گئے ہیں
کوئی نہ کوئی شوخی ہمیں بھی رکھنی ہو گی
کریں بھی کیا آخر؟ سادگی سے تھک گئے ہیں

0
8
لگتا ہے ناز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو
ایسے گداز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو
نظموں میں غزلوں میں کہ سبھی شاہکاروں میں
ہر ایک ناز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو
یوں تار تار چھیڑا ہے دل دھڑکنوں کا پھر
نغموں کے ساز میں تجھے مانگا ہے میں نے تو

0
9
خوش رہے تو بھی سدا، خدا حافظ!
بس یہی کی ہے دعا، خدا حافظ!
جاتے ہوئے کئی بار مُڑے ہم
ہم سے کہا نہ گیا، خدا حافظ!
تیرے یوں جانے کے بعد مرے بھی
ہونٹوں پہ بس یہ رہا، خدا حافظ!

0
17
دیر تک خود کو ستائیں، کیا کریں؟
اشک ایسے میں بہائیں، کیا کریں؟
بات ہم کوئی بنائیں، کیا کریں؟
آپ کچھ ایسا بتائیں، کیا کریں؟
اب چراغوں میں نہیں وہ روشنی
شام ہوتے دل جلائیں، کیا کریں؟

0
10
کتنے چہرے ہیں آدمی کے بھی
لوگ پر ہم ہیں عاجزی کے بھی
بدلے میں کچھ نہیں ملا ہم کو
دیکھے ہیں ناز زندگی کے بھی
ہر طرف دھوکا ہی نظر آیا
رنگ دیکھے ہیں سادگی کے بھی

0
9
چاہے بُرا چاہے اچھا شاعری سے مِلا
ہم سے نہ پوچھو ہمیں کیا شاعری سے مِلا
ملنے کو مجھ کو بہت کچھ مل گیا ہے مگر
مجھ کو بھی اک شخص تجھ سا شاعری سے مِلا
تو اور کچھ کر نہ کر سُن بات میری، یوں کر
تو حُسن اپنے کو اب جا شاعری سے مِلا

0
15
جلتے شعلے بھی پانی سے نکلیں گے
جب ہم تیری کہانی سے نکلیں گے
کیا کیا غم ہوں گے پیش؟ اللہ جانے
جوں جوں ہم اِس جوانی سے نکلیں گے
سُونا سُونا لگے گا دل کا گھر جب
ہم اُن کی میزبانی سے نکلیں گے

0
10
مری جانب وہ خال و خد نہیں کرتا
میں وہ ہوں جو کسی کو رد نہیں کرتا
بے وجہ لفظوں پر میں شد نہیں کرتا
کبھی بھی کوئی بات رد نہیں کرتا
کہا ہے میں نے، بس نہیں ہے محبت
مرے دل! باز آ تو حد نہیں کرتا

0
7
بُجھے ہوئے تارے رات میں نہیں آتے
یوں ہر کسی کی بھی بات میں نہیں آتے
لگے ہیں اب اُن کے ہاتھ، اُن کی مرضی ہے
یوں ہر کسی کے ہم ہات میں نہیں آتے
جو ہار جاتے ہیں اپنوں سے، وہ جیتے ہیں
کہ جیتنے والے مات میں نہیں آتے

0
13
وعدہ بھی کوئی ٹھان رہا ہے، اچھا خیر
دل بات نہیں مان رہا ہے، اچھا خیر
میں دوست جسے سمجھا، وہی دشمن نکلا
وہ دوست مری جان رہا ہے، اچھا خیر
اب کوئی بھی مخلص نہیں ہو گا، دیکھو تم
ہر اک کا یہ اعلان رہا ہے، اچھا خیر

0
8
جب تلک جی سکے جفا لیں گے
اپنے حق میں یہی سزا لیں گے
جھوٹ بولیں اگر تو سوچا ہے
ہم خود اپنی زباں چبا لیں گے
ہم تجارت یہی کریں گے بس!
بدلے میں صرف اک دعا لیں گے

0
7
حلقہ سا کوئی خوشبو میں اُٹھتا ہے
جب خم کبھی اُس گیسو میں اُٹھتا ہے
مانگی ہیں مسیحا کی نظریں میں نے
اک درد مرے پہلو میں اُٹھتا ہے
کیا پھول کلی اُس کو بہلائے گی
وہ نازِ اثر خوشبو میں اُٹھتا ہے

0
14
عرش کو چلے نکلے وہ ﷺ کچھ یوں گھر سے
وقت رُک گیا آقا ﷺ کے اِس سفر سے
بحث ہے کدھر منزل تھی مصطفی ﷺ کی
آگے ہے جو جبرائیل کے بھی پر سے
مان لو بشر ہیں وہ تو نور اللہ
نور ہو گئے مل کر وہ بھی بشر سے

0
8
ہم سے کسی کے عیب اُچھالے نہیں جاتے
اور آستیں میں سانپ بھی پالے نہیں جاتے
ہم رشتے نبھاتے چلے آئے ہیں ہمیشہ
رشتے کبھی بھی خوں سے نکالے نہیں جاتے
کامران

0
8
تو یاد مجھے دلا نہیں مانگا کرتے
محبتوں میں صلہ نہیں مانگا کرتے
بچھڑنے کے خوف سے میں بہت ڈروں گا
مگر یہ بھی حوصلہ نہیں مانگا کرتے
میں اُن سے بھلا اُمید رکھوں بھی تو کیا؟
جو پھول کبھی کھلا نہیں مانگا کرتے

0
8
دل کے پہلو میں اک زنگ دیکھتے ہیں
ہم کبھی خود کو بھی دنگ دیکھتے ہیں
زندگی جب ترے سنگ دیکھتے ہیں
ہم کیا کیا ہی پھر رنگ دیکھتے ہیں
کون خصلت پہ جاتا ہے اب تو سبھی
کپڑوں کے رنگ میں رنگ دیکھتے ہیں

0
8
ہر پھول کھل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
ہر زخم سل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
کھو دیں جسے پل بھر میں یوں وہ بھی شخص
ہر بار مل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے
طوفاں کی زد میں سب نہیں آتے جاناں
ہر پیڑ ہل جائے، یہ تھوڑی ہوتا ہے

0
9
دنیا دیکھے گی ہم چھپائیں
ہم کس سے اپنے غم چھپائیں
کوئی کنکر پڑا یہ کہہ کر
آخر میں آنکھیں نم چھپائیں
ہر اک اِس کی مہک کو سمجھے
چاہے ہم عشق کم چھپائیں

0
15
ہر کسی پر یہ ظاہر نہیں ہوتے ہیں
میری جاں سب تو شاعر نہیں ہوتے ہیں
بس یوں ہی ساتھ بھی کچھ چلے آتے ہیں
اب سبھی تو مسافر نہیں ہوتے ہیں
لوگ کچھ لگتے ہیں عمر بھر ساتھ ہیں
لگتے تو ہیں وہ آخر نہیں ہوتے ہیں

0
24
آنکھوں کو مری ستا رہا ہے شب بھر
یہ کون دیا جلا رہا ہے شب بھر
پھر لوٹ کے آتا ہے مری آنکھوں میں
اک خواب مجھے جگا رہا ہے شب بھر
اُس کے لیے کوئی شعر لکھ، غزلیں لکھ
دل میرا مجھے منا رہا ہے شب بھر

0
13
لوگ کہتے ہیں کہ پاگل ہوں میں
وہ بھی کہتے ہیں کہ پاگل ہوں میں
عشق کے سائے میں جیتا ہوں سو
دھوپ کی راہ میں بادل ہوں میں
بِن ہمارے وہ ادھورے ہیں پھر
وہ ہیں گر دریا تو ساحل ہوں میں

0
12
کوئی ہوئی ہے بات مجھ سے روٹھ کر
خاموش ہے جو رات مجھ سے روٹھ کر
اب آگ کا اُس پر اثر کیا ہو کہ جب
ٹھنڈے پڑے ہیں ہات مجھ سے روٹھ کر
میرے ہی دل میں رہ کے تیری یادوں نے
مجھ پر لگائی گھات مجھ سے روٹھ کر

0
9
اُن کے تو تکیے نم ہوتے ہیں
پہلو میں جن کے غم ہوتے ہیں
جیسے ہم تم بھی ہم ہوتے ہیں
لوگ ایسے بھی کم ہوتے ہیں
ہم تو بس اُن میں ضم ہوتے ہیں
جن کی زلفوں میں خم ہوتے ہیں

0
14
وہ میرے خوابوں میں اک مدت سے آیا نہیں
میری بھی آنکھوں کو کوئی اور بھایا نہیں
میں جانتا ہوں محبت ہی میں ہے عاجزی
سر میرا جھکتا رہا میں نے اُٹھایا نہیں
میں جانتا تھا محبت میری یک طرفہ ہے
میں خود ہی جلتا رہا اُس کو جلایا نہیں

0
8
جھوٹی سی آس سے ٹوٹ نہ جائے
دل مرا یاس سے ٹوٹ نہ جائے
آئینے جیسا کہیں مرا دل
خود مری سانس سے ٹوٹ نہ جائے
ڈرتا ہوں عشق کا رشتہ کہیں
ایک قیاس سے ٹوٹ نہ جائے

0
8
اب کی بار میرا دل بھی اداس تو نہیں
میں امید اپنی ہوں کوئی یاس تو نہیں
خود کو ڈھونڈ کر میں نے دیکھا پر نہیں ملا
پوچھو اُن سے میں کہیں اُن کے پاس تو نہیں
تشنگی میں ہے مرے ہونٹوں کو مذاق سا
خشک ہونٹ مجھ سے کہتے ہیں پیاس تو نہیں

0
13
دن بھر تیری حسرت رہتی ہے مجھے
شب بھر اِس میں برکت رہتی ہے مجھے
میں کیسے بھولوں تجھ کو جانِ جہاں؟
ہر پل تیری چاہت رہتی ہے مجھے
لکھتا رہتا ہوں غزلیں تیرے لیے
بس ایسی ہی عادت رہتی ہے مجھے

0
18
میں اُس کی آرزو کروں، میں اُس کی جستجو کروں
میں اپنے خواب میں رہوں، میں اُس سے گفتگو کروں
وہ آئینہ نما جبیں ہے، وہ بہت حسیں ہے سو
میں خامشی سے بیٹھوں خود کو اُس کے روبرو کروں

0
1
29
ہر اک کنگن کھنکتا ہے اُس کے لیے
ہر اک شعلہ بھڑکتا ہے اُس کے لیے
کہنے کو تو سلسلہ ہے ہستی کا مگر
رگ رگ سے خوں ٹپکتا ہے اُس کے لیے
تم بس آدھی ادھوری سانسوں میں رہو
میرا تو دل دھڑکتا ہے اُس کے لیے

0
42
تیرے خیالوں نے بخشا ہے مجھے وہ جنوں
میں ہر شے کو دیکھ سکتا ہوں کہ جیسے فسوں
اے میرے رہبر! نہ غوطہ زن ہو مجھ میں کبھی
میرے سمندر میں طوفاں ہے نہیں ہے سکوں
وہ تُند ہے چاروں جانب میری یہ خاک بھی
اُڑ اُڑ کے کہتی نہیں ہے، تو ہے، میں ہوں زبوں

0
27
دیکھو تو کیا کرے ہے ہر کوئی اِس جتن میں
بس چند خواہشیں ہیں انساں ترے بدن میں
ہر کوئی اب جھلستا ہی جا رہا ہے، اس میں
اک آگ سی لگی ہے اِن خواہشوں کے تن میں
ہم ایک دوسرے سے مل کر جدا نہ ہوں گے
ایسے خیال آتے ہیں میرے تیرے من میں

0
45