بُجھے ہوئے تارے رات میں نہیں آتے |
یوں ہر کسی کی بھی بات میں نہیں آتے |
لگے ہیں اب اُن کے ہاتھ، اُن کی مرضی ہے |
یوں ہر کسی کے ہم ہات میں نہیں آتے |
جو ہار جاتے ہیں اپنوں سے، وہ جیتے ہیں |
کہ جیتنے والے مات میں نہیں آتے |
ذرا سی رنجش پر توڑ دیں مراسم سب |
وہ لوگ میری تو ذات میں نہیں آتے |
میں سونے، چاندی سے سب کو کیوں ملاؤں گا؟ |
کہ لوگ کچھ مہنگی دھات میں نہیں آتے |
یوں گھات دنیا والے لگا کے بیھٹے ہیں |
مگر کہ ہم ہیں جو گھات میں نہیں آتے |
یہ عشق کی راہیں ہیں، یہاں تو دکھ بھی ہیں |
مگر سنو! جی! جذبات میں نہیں آتے |
یہ کیا کہ جس کا جی چاہے، وہ بھی کچلے گا |
سنو! کہ انساں حشرات میں نہیں آتے |
یہی وجہ ہے کچا ہے میرے گھر کا چھت |
کہ گھر میں مہماں برسات میں نہیں آتے |
کامران |
معلومات