تیرے خیالوں نے بخشا ہے مجھے وہ جنوں
میں ہر شے کو دیکھ سکتا ہوں کہ جیسے فسوں
اے میرے رہبر! نہ غوطہ زن ہو مجھ میں کبھی
میرے سمندر میں طوفاں ہے نہیں ہے سکوں
وہ تُند ہے چاروں جانب میری یہ خاک بھی
اُڑ اُڑ کے کہتی نہیں ہے، تو ہے، میں ہوں زبوں
تم چیر لو دل، کہ جاں لے لو، سزا دو مگر
رگ رگ سے ٹپکے گا عشق و مستی میں ڈوبا خوں
اِس دل کو افلاک میں، تاروں کی آغوش میں
خوش رنگ، خوش فہم، جیسے ہو حوالے کروں
سوچا تھا کے بات دل کی رات سے ہو مگر
شب چاندنی میں ڈھلے گی پھر میں کس سے کہوں

0
14