نام جس کا لبوں پر عام رہتا ہے
وہ خیالوں میں اب ہر شام رہتا ہے
جاگنے پر کریں بے چین تعبیریں
جب تلک سوتا ہوں آرام رہتا ہے
یوں نہ منہ پھیر کر ایسے بھی تم جاؤ
زندگی مجھ کو تجھ سے کام رہتا ہے
میں سمجھ میں نہیں آتا کسی کی بھی
گفتگو میری میں ابہام رہتا ہے
کس طرف چلنا ہے، کب چلنا ہے؟ ہم کو
منزلوں کا پتا ہر گام رہتا ہے
اِس قدر بے خیالی میں ہوں اب اکثر
مجھ کو ہر کام میں اک کام رہتا ہے
آرزو اُس کی دل میں رہتی ہے اور یوں
میرے ہونٹوں پہ اس کا نام رہتا ہے
کامران

0
7