اتنا آساں جواب لکھ سکتا ہوں
پانی کو میں شراب لکھ سکتا ہوں
اپنے حق میں عذاب لکھ سکتا ہوں
کتنے دیکھے ہیں خواب لکھ سکتا ہوں
شاعر ہوں چاہوں تو تری زلفوں پر
میں اک پوری کتاب لکھ سکتا ہوں
اک ٹہنی پر ہیں دونوں خود کو کانٹا
اور اس کو میں گلاب لکھ سکتا ہوں
کتنے القاب ہیں مرے تیرے میں
وہ، تم چھوڑو جناب لکھ سکتا ہوں
اتنا معصوم بھی نہیں ہوں میں اب
خاموشی کو جواب لکھ سکتا ہوں
وہ گر میرے لیے نہیں کُھلتی تو
اُن آنکھںوں کو نقاب لکھ سکتا ہے
کامران

0
5
46
اتنا آساں جواب لکھ سکتا ہوں
پانی کو میں شراب لکھ سکتا ہوں

سر آپ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ سوال کیا تھا جس کے جواب میں آپ آسانی سے پانی کو شراب لکھ سکتے تھے- لہٰذا شعر سمجھ نہیں آ سکا -

0
آنسو سوال تھا جوشِ اشک کو میں نے شراب کہہ دیا آسانی سے

0
سر تو یہ بتایئے کہ پڑھنے والے پہ یہ الہام کیسے ہوگا کہ آپ دراصل آنسو کو سوال کہہ رہے ہیں ؟
کیونکہ اس کی طرف تو کوئی اشارہ شعر میں نہیں ہے-
پھر یہ بھی کسی کو کیسے پتا چلے گا کہ جوشِ اشک کو شاعر نے شراب سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اس کی بھی کوئ علت شعر میں نہیں ہے - اور پھر اگر آنسو شراب ہیں تو کیوں ہیں؟ یہ کیسے پتا چلے گا - کیا آنسو بھی حرام ہیں یا کیا آنسووں سے بھی نشہ ہوتا ہے ؟
الغرض مجھ جیسے کم عقل لوگوں کے لیئے شاید یہ شعر نہیں ہے

0
جمالیاتی و معنوی تجزیہ کے لحاظ سے دیکھا جائے "آساں جواب" کہنا دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ/شاعر بڑے اور پیچیدہ سوالات کے بھی سادہ اور اثر انگیز جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔پانی" جو ایک عام، سادہ چیز ہے، اسے "شراب" — یعنی کسی پراثر، خاص اور جذبات انگیز شے — میں بدل دینا دراصل یہ بتاتا ہے کہ لکھاری کے الفاظ میں اتنی تاثیر ہے کہ وہ کسی بھی حقیقت کو بدل کر پیش کر سکتا ہے، جیسا کہ ایک ہنر مند فنکار عام مٹی سے شاہکار بنا لیتا ہے۔

مزید سر اگر آپ اصلاح کر دیں تو مجھے خوشی ہوگی

0
اتنا آساں جواب لکھ سکتا ہوں
پانی کو میں شراب لکھ سکتا ہوں

نہیں سر اس طرح کے مفروضے شاعری نہیں ہوتی -
شاعری میں ہر ہر لفظ کا ایک مطلب اور مقام ہوتا ہے - ہر لفط اور ہر مصرعے کا دوسرے سے تعلق ہوتا ہے -
شعر کا مطلب شاعر تک ہی محددو ہو تو وہ تو کوئی ابلاغ ہی نہ ہوا

جب آپ نے لکھا
اتنا آساں جواب لکھ سکتا ہوں
-- اب قاری کے زہن میں آیا کہ کسی نے کوئی سوال پوچھا ہے جو شائد بہت مشکل ہے مگر شاعر کے پاس اس کا آسان جواب ہے - پھر آپ نے یہ بھی کہا کہ لکھ سکتا ہوں گویا یہ سوال کسی گفتگو میں بالمشافہ نہیں پوچھا گیا بلکہ لکھ کے پوچھا گیا ہے جو کہ خط یا امتحان کی طرف اشارہ ہے - اب یہ سب زہن میں لا کر جب قاری آگے بڑھتا ہے تو آتا ہے "


" پانی کو میں شراب لکھ سکتا ہوں"
یہاں اس کا زہن بھک سے اڑ جاتا ہے - یہ پانی کہاں سے آگیا ؟ - اور پھر پانی کو شراب تو کوئ بھی لکھ سکتا ہے - قاری بھی، تو اس میں کرتب کیا ہوا؟ - وہ سوال کہاں گیا جو مشکل تھا - وہ جواب کدھر ہے جو آسان تھا؟

آپ پانی کو میں شراب لکھ سکتا ہوں کی جگہ کچھ بھی لکھ دیکجیئے شعر کو فرق ہی نہیں پڑے گا
میں بھی اک کتاب لکھ سکتا ہوں یا کچھ بھی - کیونکہ کسی میں بھی پہلے سے کوئی ربط ہی نہیں ہے -

اور اصلاح کا کیا کہوں - آپ کو یہاں خیال باندھنا ہے - جو آپ کے دل میں ہے آپ کے ان لفظون میں نہین ہے -

باقی جیسا آپ صحیح سمجھیں

0