دیکھو تو کیا کرے ہے ہر کوئی اِس جتن میں
بس چند خواہشیں ہیں انساں ترے بدن میں
ہر کوئی اب جھلستا ہی جا رہا ہے، اس میں
اک آگ سی لگی ہے اِن خواہشوں کے تن میں
ہم ایک دوسرے سے مل کر جدا نہ ہوں گے
ایسے خیال آتے ہیں میرے تیرے من میں
ہم کس کی خوشبو سے دل بہلائیں گے اب اپنا
اب کوئی پھول بھی تجھ جیسا نہیں چمن میں
پہلے وہ یاد کرتا تھا دیر تک مجھے، پر
اب بات بھی وہ پہلے جیسی نہیں سجن میں
حیراں ہے کیوں، ذرا عالم دیکھ، ہوش بھی کر
خوشبو اُتر رہی ہے عاشق ترے کفن میں

0
27