میں خود کو کہیں چھوڑ آیا
گماں کیا یقیں چھوڑ آیا
خیالوں کی محفل میں بیھٹا
میں سب کچھ وہیں چھوڑ آیا
یوں سجدہ درِ یار پر تھا
میں اپنی جبیں چھوڑ آیا
زمانے کو اچھی لگی گی
میں صورت حسیں چھوڑ آیا
یوں اُلجھی سی حالت بیاں ہو
کہ ہاں میں نہیں چھوڑ آیا
مری کند ذہنی یہی ہے
میں خود کو ذہیں چھوڑ آیا
جہاں ہوتا تھا کچھ سکوں بھی
وہی گھر مکیں چھوڑ آیا
تھا شوقِ محبت مرے میں
میں وہ بھی قریں چھوڑ آیا
کامران

0
6